اسرائیل کی موجودہ اور گذشتہ جارحیت اور ظلم و تشدّد کا اہم اور بنیادی سبب’’ہیکل سلیمانی‘‘کی ازسرِ نو تعمیر ہے ، جس کے بارے میں معروف ہے کہ وہ کم و بیش گذشتہ دو ہزار سال سے زائد عرصے سے زمین بوس ہے ،’’ہیکل سلیمانی‘‘ اصل میں ہے کیا۔۔۔؟ یہودیوں کے نزدیک یہ اس قدر اہم کیوں ہے۔۔۔؟ کہ ہزار وں سال گزرنے کے باوجود، وہ اس کو فراموش نہیں کر پائے، اور آج بھی اس کی از سرِ نو تعمیر کی خاطر ، دنیا کا امن تہہ و بالا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔’’ ہیکل سلیمانی‘‘حضرت سلیمان ؑکے ساتھ منسوب ہے ،جو حضرت دائود ؑ کے سب سے چھوٹے بیٹے،جن کا اصل عبرانی نام’’سولومون‘‘تھا،جو’’سلیم‘‘کا ہم معنی ہے،آپؑ965 ق م حضرت دائود کے جانشین بنے اور 926 ق م تک،تقریباً چالیس سال فرما نروا رہے،حضرت سلیمان کو ایسی نبوّت و حکومت عطا ہوئی،جہاں ہوائیں ان کے لیے مسخّر،پرندے، ان کے حکم کے پابند اور ان کی بولیاں آپؑ کو سکھائی گئیں،’’بحری تجارت‘‘کی ابتدا کاری آپ ؑ سے ہوئی،چونکہ بحری سفر کا سارا انحصار’’بادِموافق‘‘پر ہوتا ہے،جو حضرت سلیمان کے زیر اثر تھیں، اور ان کے بحری بیڑوں کو جس سمت کی ہوا چاہیے ہوتی، ویسی ہی میسر آجاتی،اسی طرح شیاطین اور جنّات بھی حضرت سلیمان کے لیے مسخّر ہوئے، جو ان کے لیے مختلف خدمات سر انجام دیتے۔ایک روایت کے مطابق ’’تابوتِ سکینہ‘‘۔۔۔ حضرت آدم ؑ کا بابرکت صندوق،جو آپؑ کے بعد نسل در نسل چلتا ہوا،حضرت یعقوبؑ تک پہنچا اور بنی اسرائیل کے انبیأ میں منتقل ہوتا رہا،حضرت موسٰی، حضرت ہارون او ردیگر انبیأ کے تبرکات اس میں محفوظ تھے، جن میں بطور خاص حضرت موسٰی ؑ کا عصا،تورات کی وہ تختیاں جو کوہِ سینا پر حضرت موسٰی پہ نازل ہوئیں،وہ برتن یا دستر خوان جو آسمانوں سے من و سلوٰی کے ساتھ اُترا کرتا۔ اسرائیلی ’’تا بوتِ سکینہ‘‘کو اپنے قبلہ کے طور پر استعمال کرتے،آگے رکھ کر عبادت کرتے ،جنگوں اور لڑائی میں سامنے رکھتے، تاکہ اس وسیلے سے فتح و کامرانی میسر آسکے،ان تبرکات کی بر کت سے اللہ تعالیٰ ان پر برکات نازل فرماتا اور انہیں نصرت و کامیابی عطا ہوتی۔جب بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کا سلسلہ دراز ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ نعمت چھین لی، اور ان پر عمالقہ یعنی جالوت اور اس کی قوم کومسلط کردیا، انہوںنے بنی اسرائیل کو تہہ تیغ اور ان کے شہروں کو تاراج کر کے،انہیں علاقہ بدر کردیا،ان کی اولادوں کو قتل اور باقی کو گرفتار کر لیا اور مستزادیہ کہ ان کا یہ مقدس صندوق’’ تابوتِ سکینہ‘‘بھی ان سے چھین کر،اپنے ہمراہ لے گئے۔قرآن پاک کی سورۃ البقرہ،آیت248میں اسکا یوں تذکرہ ہے : ’’اس کے ساتھ ان کے نبی نے ان کو یہ بھی بتایا کہ خدا کی طرف سے اس کے بادشاہ مقرر ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے عہد میں وہ صندوق تمہیں واپس مل جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے سکونِ قلب کا سامان ہے جس میں آلِ موسٰی ؑ اور آلِ ہارون ؑ کے چھوڑے ہوئے تبرّکات ہیں اور جس کو اس وقت فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں۔ اگر تم مومن ہو تو یہ تمہارے لیے بہت بڑی نشانی ہے۔‘‘ اس صندوق کے جانے کا بنی اسرائیل کو بڑا قلق اور غم تھا ، وہ سمجھتے تھے کہ ان تبرکات کے چھِن جانے سے گویارحمتِ خدا وندی سے وہ محروم ہوگئے ہیں،جس کے سبب اُن پر ذلت اور پستی غالب آگئی ہے ۔ حضرت طالوت جب بنی اسرائیل کی شیرازہ بندی کرتے ہوئے، انہیں جالوت کے مقابلے میں صف آرأ کر رہے تھے،تو یہ’’تابوت ِسکینہ‘‘ایک بیل گاڑی پر ،ان کی طرف آن وارد ہوا،اس موقع پر،ان تبرکات کے یوں اچانک دوبارہ مل جانے کو نیک شگون اور دوبارہ عروج و بلندی کا اشارہ جان کر،بنی اسرائیل بہت خوش ہوئے اور طالوت کی قیادت میں متحد اور یکسو ہوگئے،جالوت کے قتل کے بعد، حضرت دائود ؑ کا عہد آفریں دور،بنی اسرائیل کے لیے عروج اور ترقی کا زمانہ ثابت ہوا،چنانچہ حضرت دائود ؑنے’’تابوتِ سکینہ‘‘کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط اور عظیم عمارت کی تعمیر کا فیصلہ کیا،جو ان کے بیٹے حضرت سلیمانؑ کے عہد میں 7 سال میں مکمل ہوئی ، جسے’’ہیکل سلیمانی‘‘ کا نام دیا گیا ۔ جس کی لمبائی 60 گز،چوڑائی 20 گز اور بلندی30 گز تھی ، صاحب معارف القر آن کے مطابق:’’بیت المقدس کی تعمیر جو حضرت دائود ؑ نے شروع کی ، پھر حضرت سلیمان ؑ نے اس کی تکمیل فرمائی ، اس میں کچھ کام تعمیر کا باقی تھا ، جو جنّات کے سپرد ہوا،جن کی طبیعت میں سر کشی غالب تھی ،وہ حضرت سلیمانؑ کے خوف سے کام کرتے تھے،ان کی وفات کا جنّات کو علم ہوجائے تو فوراً کام،چھوڑ بیٹھیں گے، اور تعمیر رہ جائے،اس کا انتظام حضرت سلیمانؑ نے باذنِ ربانی یہ کیا کہ جب موت کا وقت آیا، تو موت کی تیاری کر کے اپنے محراب میں داخل ہوگئے ،جو شفاف شیشے سے بنی ہوئی تھی ، با ہر سے اندر کی سب چیزیں نظر آتی تھیں،اور اپنے معمول کے مطابق عبادت کے لیے ایک سہارا لے کر کھڑے ہوگئے ،کہ روح پرواز کرنے کے بعد ،بھی جسم اس عصا کے سہارے اپنی جگہ جما رہے ۔ حضرت سلیمان ؑ کی روح وقتِ مقرر پر قبض کر لی گئی ، مگر وہ اپنے عصا کے سہارے اپنی جگہ جمے ہوئے ،باہر سے ایسے نظر آتے تھے کہ عبادت میں مشغول ہیں، جنا ت کی یہ مجال نہ تھی کہ پاس آکر دیکھ سکتے ۔ حضرت سلیمان ؑ کو زندہ سمجھ کر کام میں مشغول رہے ، یہاں تک کہ سال بھر گزر گیا ، اور تعمیر بیت المقدس کا بقیہ کام پورا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے کھُن کا کیڑا،جسے فارسی میں دیوک اور اردومیں’’دیمک‘‘کہا جاتا ہے ، اور قرآن کریم نے اس کو’’دابۃ الأ رض‘‘کے نام سے موسوم کیا ہے ، عصائے سلیمانی پر مسلط کردیا۔ دیمک نے عصاکی لکڑی کو اندر سے کھا کر کم زور کردیا، عصا کا سہارا ختم ہوا تو حضرت سلیمان ؑ کا وجود فرش زمین پر تشریف فرما ہوگیا،اس وقت جنات کو ان کی موت کی خبر ہوئی۔ صاحب تفسیر القرطبی بیان کرتے ہیں کہ:"حضرت دائود ؑ نے نبوت اور بادشاہت ملنے کے بعدا للہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ایک عظیم الشان عبادت گاہ (مسجد) تعمیر کرانا شروع کی ،اسی تعمیر کو’’ہیکل سلیمانی ‘‘کہا جاتا ہے ، جسے حضرت سلیمان ؑ نے اپنے والد کی وصیت کے مطابق نہایت اہتمام اور شان سے مکمل کروایا، یہاں تک کہ اس کی تعمیر میں اِ تقان و اِستحکام کے لیے جنات سے بھی خدمت لی۔ چونکہ حضرت سلیمان ؑ نے اس مسجدِ بیت المقدس کی تکمیل کی اور نمایاں و عظیم الشان تعمیر ات آپؑ نے کروائیں اس لیے اسے ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ ہیکلِ سلیمانی سے مراد وہی مسجدِ بیت المقدس ہے جس کی تعمیر کا ذِ کر قرآنِ مجید نے بھی کیا ہے ، اور جو آج تک موجود ہے ، جہاں سے رسول ﷺ کو معراج کے موقع پر آسمانوں کے سفر کے لیے لے جایا گیا ۔ اس کے علاوہ مزید کوئی خاص وضع کی تعمیر مراد نہیں ہے ۔ " (جاری ہے)