آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم ٹونٹی 20 ورلڈ کپ جیت گئی۔آسٹریلیا نے ٹی 20 ورلڈکپ جیتنے کا اعزاز پہلی بار حاصل کیا ہے اس سے پہلے آسٹریلیا پانچ بار ایک روزہ میچوں کا ورلڈ کپ جیت چکا ہے۔ اب تک ٹوٹل 12 ورلڈ کپ ہوئے ہیں جن میں سے پانچ بار آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز اور انڈیا دو بار اور پاکستان، انگلینڈاور سری لنکا ایک بار یہ اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔آسٹریلیا نے سیمی فائنل میں پاکستان کو ہرایا تھا اور فائنل میں نیوزی لینڈ کو ہرایا۔نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان سے ہاری تھی اور نیوزی لینڈ نے انگلینڈ کو ہرایا اور انگلینڈ کی ٹیم آسٹریلیا کو ہرا چکی تھی۔کوئی بھی ٹیم اس ورلڈ کپ میں ناقابل شکست نہیں رہی۔کیا بات ہے کہ ہم ہمیشہ بڑے میچوں میں آسٹریلیا سے ہار جاتے ہیں۔ 1987ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان فیورٹ تھا اور آسٹریلیا سے سیمی فائنل میں ہار گیا اور آسٹریلیا چیمپین بن گیا۔ 1999ء میں پاکستان نے آسٹریلیا کو گروپ میچ میں ہرایا اور سیمی فائنل میں ہار گئے۔آسٹریلیا چیمپین بن گیا۔پاکستان اس ورلڈ کپ میں رینکنگ میں تیسرے نمبر پہ تھا اور آسٹریلیا کی ٹیم چھٹے نمبر پر تھی۔چھٹے نمبر والی نے سیمی فائنل میں نمبر تین کو ہرایا اور فائنل میں نمبر چار کو چاروں خانے چت کر دیا۔ آخر کیا وجہ ہے ہم بہتر پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی کامیاب نہیں ہوتے۔ پاکستان نے پہلا میچ انڈیا سے جیتا اور دوسرا نیوزی لینڈ سے تو ساری قوم نے اپنے آپ کو چیمپین سمجھنا شروع کر دیا۔کوئی بھی سیمی فائنل کی بات نہیں کررہا تھا سب اس بات پے غور کررہے تھے ہمارا مقابلہ فائنل میں کس سے ہو گا۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارا یہی حال ہے ہم ہر آنے والے سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ آن کی آن میں سب مسائل کو حل کر دے گا۔ کبھی ہم ایوب خان کو مسیحا سمجھے تھے اور پھر بھٹو ہمارا نجات دہندہ تھا اور بعد میں جنرل ضیاالحق سے امید لگائی کہ وہ اسلامی نظام کو نافد کر دے گا۔نواز شریف کو ہم سمجھے وہ پاکستان کو کوریا اور جاپان بنا دے گا اور ہم تین سال پہلے قوم کو یقین تھا عمران خان آئی ایم ایف کا قرضہ اتار دے گا۔ کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا اور ملک میں میرٹ کا بول بالا ہو جائے گا۔ ہم وہ قوم ہیں جو گندم بیج کر چنے کی فصل کاٹنے کی امید کرتے ہیں۔ کامیابی کو دو راستے ہیں ایک تو آپ دماغ سے سوچتے ہیں اور اپنے اہداف مقرر کرتے ہیں اور ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے اقدامات کرتے ہیں۔ یہ طریقہ آسٹریلیا کا ہے۔جو پہلے انفرا سٹرکچر بناتے ہیں پھر اس انفرا سٹرکچر کو استعمال کرتے ہیں۔ دوسرا طریقہ جنون کا ہے فٹ بال میں برازیل اور کرکٹ میں ویسٹ انڈیز اسکی مثال ہے۔ویسٹ انڈیز نے دو بار 1975ء اور 1979ء میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا۔اب تک کے ہونے والے بیس ورلڈ کپ میں برازیل نے پانچ بار کامیابی حاصل کی۔ایک وہ وقت تھا جب سکوائش کے کھیل میں ٹاپ ٹن میں ہمارے سات، آٹھ کھلاڑی تھے یہ جنون کا دور تھا۔اس وقت ہمارے پاس تین سکوائش کورٹ تھے ۔اسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ میں سینکڑوں سکوائش کورٹ بنے اور اب یہ صورتحال ہے ہمارا ایک بھی کھلاڑی پہلے ٹاپ ٹن میں نہیں ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جو جاگتے میں خواب دیکھتے ہیں۔ ہم استاد کو عزت دئے بغیر تعلیم کی ترقی چاہتے ہیں۔ہم سکول اور کالج قائم کئے بغیر تعلیم یافتہ بننے کے چکر میں ہیں۔ ہم چوری کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے اور دوسرے لوگوں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ سڑک پر پڑی چیز کو نہ اٹھائیں۔اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کھیل کا کلچر عام کرنا ہوگا۔ کھیل کا میدان وہ درسگاہ ہے جو برداشت اور تحمل سکھاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ عدم برداشت کا ہے۔ ہم اختلاف رائے کو پسند نہیں کرتے ہم مذہب میں تنگ نظر ہو گئے ہیں۔ہم سیاست میں گالی گلوچ پر اتر آئے ہیں۔ کھیل کا میدان ایک آدمی کو ہیرا پھیری سے نفرت کرنا سکھاتا ہے۔ سپورٹس مین سپرٹس آدمی کو اچھے اقدار سکھاتی ہے۔ ہم کہتے ہیں ہمارے پاس نوجوان طبقے کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہ ایک اثاثہ ہے۔ہمارا نوجوان طبقہ نشے کا جال میں پھنسا ہوا ہے وہ موبائل فون کا قیدی ہے اسکی نیند اور مصروفیت سب موبائل فون کی محتاج ہیں۔ یہ اثاثہ ہمارا بوجھ بن چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نوجوان کو کھیل کے میدان میں بھیجیں اور اس کو نظم وضبط کا عادی کریں۔ اسکو اس بات کا عادی بنایئں کہ اس نے ہار کو کس طرح برداشت کرنا ہے۔ہمارا ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے ہم ہار کو برداشت نہیں کرتے۔ہم اپنی ناکامی پر ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ ہم ناکامی پر دوسرے لوگوں کو قربانی کا بکرا بنانے کے عادی بن چکے ہیں۔الیکشن ہار جائیں ہم دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔ہم کبھی نہیں مانتے ہماری جدو جہد میں کمی تھی ہم لوگوں تک اپنا پیغام نہیں پہنچا پاتے۔ہم حالات کا درست ادراک نہیں کر سکے۔ ہمارا رونا ہوتا ہے ہمیں یہ نہیں کرنے دیا گیا۔ ہم کبھی بات نہیں کرتے ہم یہ نہیں کر سکے ہم اپنی کوتاہی کو تسلیم نہیں کرتے۔یہ وطیرہ ہماری ساری قوم کا ہے سیاستدان ہمیشہ اپنی ناکامی کا ملبہ دیگر عناصر پر ڈال دینگے۔ کوئی کتنا اچھا سنار کیوں نہ ہو تالہ بنانا لوہار کا کام ہے سنار کا کام نہیں۔ ہم ہر کسی کے کام میں اپنی ٹانگ آڑاتے ہیں۔ ہم میں ہر کوئی بیک وقت سنار، لوہار، موچی، دھوبی اور فنکار ہوتا ہے۔ایک آدمی ایک وقت میں ایک کام کر سکتا ہے ،اگر گول کیپر سنٹر فارورڈ کی پوزیشن پر کھیلے گا تو نتیجہ تو سامنے ہیں۔ فٹ بال ، ہاکی اور دیگر کھیل میں ہر آدمی اپنی پوزیشن پر کھیلتا ہے۔مڈ فیلڈر گول کیپر کی جگہ پر نہیں ہوگا ،وکٹ کیپر باؤلر کی جگہ نہیں لے گا۔ یہ سب باتیں ہم عملی طور پر کھیل سے سیکھ سکتے ہیں، اگر ہم کھیل کے میدان آباد کر دیں تو ہسپتال ویران ہو جائیں گے۔ کھیل کھیل میں زندگی سدھر سکتی ہے ورنہ کباڑا تو ہمارا منتظر ہے ۔