کلبھوشن یادیو پر ہونے والی قانون سازی پر میرے جیسا ایک بے بس شہری دکھی ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ احسن اقبال کس کو رو رہے ہیں؟ کیا انہیں یاد نہیں ، فصیلوں میں ریت انہی کی حکومت کے دور میںبھری گئی تھی۔وہ سادہ بہت ہیں یا چالاک بہت؟ کس بے نیازی سے پروفیسر صاحب نے ایوان میں کھڑے ہو کر نوحہ پڑھا۔ آسکر والوں کو سیاست سے رہ و رسم نہیں ،ورنہ اداکاری کا یہ جوہر اس بات کا مستحق ہے کہ اسے ایوارڈ عطا کیا جائے۔ فرماتے ہیں :’’ بھارت کشمیر میں ظلم ڈھا رہا ہے اور اور یہاں اسے این آر او دے دیا گیا ہے۔کشمیر کی اس بیٹی کو کیا جواب دیں جو باپ کے قتل پر دہائیاں دے رہی ہے‘‘۔ درد کی یہ روبکار بتاتی ہے کہ احسن اقبال صاحب بڑی تکلیف میں ہیں ۔ شفایابی کے لیے اب اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں کہ بیمار کا ہاتھ تھام کر اسے ماضی میں لے جایا جائے۔ احسن اقبال صاحب کو یاد ہو گا جب بھارت کلبھوشن یادیو کے معاملے کو عالمی عدالت میں لے کر گیا تھا اس وقت پاکستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ حکومت کے پاس یہ آپشن دستیاب تھا کہ وہ عالمی عدالت انصاف کی کارروائی کا حصہ ہی نہ بنتی۔ وہ اس کی جورسڈکشن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ۔ ایسا کرنے کے پاکستان کے پاس قانونی دلائل بھی موجود تھے اور بین الاقوامی روایات بھی دستیاب تھیں۔ یہی نہیں بلکہ بھارت سے معاملہ تھا تو یہاں reciprocation کا اصول بھی موجود تھا۔ ان تینوں پہلوئوں کو دیکھ لیتے ہیں پھر ہم پروفیسر جناب احسن اقبال صاحب کے غم جہاں کا حساب کریں گے۔ عالمی عدالت انصاف بنیادی طور پر ریاستوں کے معاملات کو دیکھتی ہے افراد کے معاملات کو نہیں۔کلبھوشن کا معاملہ ایک فرد کا معاملہ تھا اور عالمی عدالت کے پاس کوئی اختیار سماعت سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ چنانچہ اسی پہلو کی بنیاد پر ن لیگ کی حکومت کے پاس یہ حق موجود تھا کہ وہ عالمی عدالت کا حق سماعت تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔افراد میں بھی ایک عام فرد اور ایک جاسوس کا معاملہ الگ ہوتا ہے۔پاکستان بہت آسانی سے یہ کہ سکتا تھا کہ ویانا کنونشن کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا جو جاسوسی کریں اور دہشت گردی کا ارتکاب کریں۔ بین الاقوامی روایات بھی اس کی اجازت دیتی تھیں اور یہ پہلا موقع نہ ہوتا کہ کوئی ملک اس کے حق سماعت کا انکار کرتا۔ یہ کسی بھی ریاست کا مسلمہ اختیار تھا اور پاکستان سے پہلے دیگر ریاستیں ایسا کر چکی تھیں۔ ن لیگ کی حکومت بھی انکار کر دیتی تو کوئی آسمان نہ ٹوٹ پڑتا۔ تیسرا پہلو بھارت کے ساتھ ہمارا reciprocation کا ایک اصول تھا۔ بھارت اگر ہمارے ساتھ کوئی حرکت کرتا ہے تو ہم اسے اسی طرح جواب دیتے ہیں اور یہ ہمارا حق ہے۔ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ پاکستان نیوی کا ایک پٹرولنگ جہاز مگ 21 بھارت نے مار گرایا تھا جس میں ہمارے 16 جوان شہید ہو گئے تھے۔ پاکستان اس معاملے کو لے کر اسی عالمی عدالت میں گیا تھا اور بھارت نے اس عدالت کا حق سماعت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت نے عجلت میں ، کسی سے مشاورت کیے بغیر یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس معاملے میں عالمی عدالت انصاف کا حق سماعت یعنی جورسڈکشن قبول کرتے ہیں ۔ چنانچہ ہم نے سر تسلیم خم کیا۔ ہم سماعت کا حصہ بنے۔ ہم نے وہاں دلائل دیے۔ ان دلائل کے بعد عالمی عدالت انصاف نے ایک فیصلہ کیا۔ پروفیسر صاحب کی بے نیازی دیکھیے کہ اپنے نامہ اعمال کی تیرگی پر ذرا سا بھی نادم نہیں البتہ عمران حکومت کے خلاف رجز پڑھ رہے ہیں۔ آج احسن اقبال ملکہ جذبات بنے دہائی دیتے پھر رہے ہیں کہ کشمیر کی بیٹی کو کیا جواب دیں گے ، سوال یہ ہے کہ کشمیر کی بیٹی کو انہوں نے اس وقت کیا جواب دیا تھا جب ان کی حکومت نے کلبھوشن کے معاملے میں عالمی عدالت انصاف کے حق سماعت کو تسلیم کر لیا تھا؟ کیا اس وقت انہیں یہ خیال نہیں آیا تھاکہ بھارت ہمارے سولہ شہیدوں کے معاملے میں اس عدالت کا حق سماعت تسلیم کرنے سے انکار کر چکا ہے تو ہم اس کے ایک جاسوس کے معاملے میں اس عدالت کا حق سماعت کیوں تسلیم کر رہے ہیں؟ ایسی کیا بے تابی تھی کے متعلقہ ماہرین سے مشاورت اور رہنمائی لیے بغیر آپ بھاگ کر سماعت کا حصہ بن گئے اور ریاست کے دیرینہ موقف کو ادھیڑ کر رکھ دیا؟بھارت آپ کے سولہ شہید وں پر ہٹ دھرمی دکھا گیا۔ آپ ایک جاسوس پر لیٹ گئے؟ پروفیسر صاحب کو یاد ہو گا ، جب یہ معاملہ درپیش تھا پاکستان میں سب دہائی دے رہے تھے کہ عالمی عدالت کا حق سماعت تسلیم نہ کیا جائے۔ شیریں مزاری سے لے کر فروغ نسیم تک سب کی یہی رائے تھی ۔لیکن ن لیگ حکومت جانے اپنے اداروں کے خلاف کون سا ادھار کھائے بیٹھی تھی اور بھارت سے اس کی وارفتگی جانے کیوں اس قدر تھی کہ اس نے یہ حق سماعت تسلیم کر لیا۔ اسی روز سابق چیف جسٹس جسٹس شائق عثمانی نے کہا تھا کہ حکومت نے بلنڈر کر دیا اور اپنے ہی پائوں پر گولی چلا دی ہے۔ن لیگ کی ہنر کاری دیکھیے ، سب کچھ خود کر کے آج دہائی دینے آ گئے ہیں کہ ہائے اللہ جی یہ کیا ہو گیا۔ ن لیگ کے کمالات یہیں ختم نہیں ہوتے۔ بلکہ اس کی مہربانی سے پاکستان کی جانب سے یہ مقدمہ اس بھونڈے طریقے سے لڑا گیا کہ لوگ حیران رہ گئے۔پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے کے لیے ڈیڑھ گھنٹے کا وقت دیا گیا اور ابھی آدھا وقت باقی تھا کہ ہمارے وکیل صاحب نے بات ہی ختم کر دی۔ یعنی ان کے پاس کہنے کو اتنا بھی نہیں تھا کہ عدالت کی جانب سے دیے گئے وقت کا استعمال ہی کر پاتے۔ یوں محسوس ہوتا ہے ایک رسم تھی پوری کر دی گئی۔ جانے کس کس سے کون کون سے بدلے لیے جا رہے تھے۔لیکن بھگتنا ریاست پاکستان کو پڑ رہا ہے۔ سابق اٹارنی جنرل انور منصور کا کہنا تھا کہ’’ اس معاملے کو دیکھنے والے وکلاء کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ان کے دلائل میں کوئی وزن نہیں تھا۔انہیں اپنے موقف کو منطقی اندا زسے پیش کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے پاکستان کی جورسپروڈنس برباد کر کے رکھ دی ہے۔ ہمیں ایک ایسی قانونی ٹیم چاہیے جو ملک کی وفادار ہو‘‘ کتنی سفاک اور بے رحم سیاست ہے کہ پاکستان کے موقف کا ستیا ناس کر کے ، اس کے لیے ہزیمت کا سامان کر کے ، بجائے شرمندہ ہونے کے ، ن لیگ کی قیادت اب اداکاری کرتے ہوئے آنسو بہا رہی ہے کہ ہائے اب ہم کشمیر کی بیٹی کو کیا جواب دیں گے۔ ابولکلام آزاد نے کہا تھا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ معلوم یہ ہوتا ہے اس کی آنکھ سے حیا بھی اٹھ چکی ہے۔کشمیر کی بیٹی کو تو خیر آپ نے کیا جواب دینا ہے آپ ایسا کریں کسی دن آئینے کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ آئینہ آپ سے کچھ سوال پوچھے گا۔ انہی کے جواب دے کر دکھا دیجیے۔