لندن(ویب ڈیسک)رنگ اندھے (کلر بلائنڈنیس) کے مریضوں کے لیے دنیا کا پہلا کانٹیکٹ لینس تیار کرلیا گیا۔عموماً کانٹیکٹ لینس قریب اور دور کی نظر بہتر بنانے یا پھر آنکھوں کو خوبصورت رنگ دینے کے کام آتے ہیں۔ اس سے قبل انہیں کلربلائنڈنیس کے لیے کبھی آزمایا نہیں گیا لیکن اب یونیورسٹی آف برمنگھم کے ماہرین نے ایک کم خرچ ڈائی (رنگ) پر مشتمل ایسا کانٹیکٹ لینس تیار کیا ہے جو دنیا بھر میں موجود لاکھوں ایسے مریضوں کے لیے امید کی ایک کرن ثابت ہوسکتا ہے جنہیں بعض رنگ دیکھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے ۔آنکھ کے پیچھے رنگ دار روشنی کو محسوس کرنے والے خاص خلیات (سیلز) کونز کہلاتے ہیں۔ مختلف کونز مختلف روشنیوں کو جذب کرکے ہمیں اس کا احساس دلاتے ہیں اور یوں ہمیں سارے رنگ دکھائی دیتے ہیں لیکن بعض پیدائشی نقائص اور جینیاتی وجوہ سے کئی افراد بعض رنگ نہیں دیکھ پاتے جسے ’’کلر وِژن ڈیفی شنسی‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔کلربلائنڈنیس کی سب سے عام قسم میں لوگ سبز اور سرخ رنگ میں تمیز نہیں کرپاتے اور انہیں یہ مٹیالا پیلا براؤن رنگ دکھائی دیتا ہے ۔ اس سے متاثرہ خواتین و حضرات ٹریفک روشنیاں بھی نہیں پہچان پاتے اور انہیں زندگی میں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس کے علاج کے لیے جین تھراپی کے ذریعے آنکھوں میں نئے خلیات کی پیدائش کی کوشش کی گئی ہے جن کے کلربلائنڈ بندروں پر تجربات کامیاب رہے ہیں۔ دوسری جانب ایک کمپنی این کروما نے اس کے لیے عینک تیار کی ہے جو بھاری بھرکم ہے لیکن اب برمنگھم یونیورسٹی نے اس مرض کے لیے کانٹیکٹ لینس ایجاد کیے ہیں۔ان لینس کو ڈاکٹر حیدر بٹ اور ان کی ٹیم نے تیار کیا ہے ۔