روزمرہ کا رونا دھونا اور آئے دن بے یقینی کا فسانہ ہے۔ غریب عوام اور اتنے غریب کہ غربت خود ان سے شرمندہ ہوتی ہے۔ بھوک ہے۔ افلاس کا سورج ڈھلتا نظر نہیں آتا۔ بیماری ہے ‘ وبا ہے۔ مخلص اور ہمدرد بھی موجود نہیں۔ہر وقت اور ہر موقع غریب کی درگت بنانے کے لئے بگڑے دل سرمایہ دار ٹھگوں اور جاگیردار قزاقوں کے لئے رنگ بہاراں ہوتا ہے۔ وقت کی سرعت رفتاری کورونا کو اپنے ساتھ ساتھ گھسیٹ رہی ہے۔ سارا ماحول اس وبا کے آلودہ ذکر سے ذہنی آلودگی کی گود میں جا پڑا ہے۔ اہل فکر بالکل ہی بے فکری میں پیٹ بھرنے کی ہانک رہے تھے۔ یہ لوگ مصائب و ابتلا کے الفاظ سے آشنا تھے‘ مگر مصیبت کی گھاٹی اور ابتلا کی کربناکی سے ان کا گزران ہوا ہی نہیں تھا۔ روز مشورے تحریر کرتے تھے کہ یہ لاک ڈائون بہت بڑی نعمت ہے اور ایک بڑی آزادی ہے۔ فرصت کے اوقات میں ہم بالکل آسودہ ہو جائیں گے۔ تازہ دم ہوں گے لکھنے پڑھنے کا بڑا دلفریب ماحول میسر آئے گا۔ ایک قلمکار روزانہ قلم برداشتہ ماضی کی سرسنگیت کی فضائے مکدر کا تعارف کرواتے ہوئے سکون قلب کی روشنی کا نام دیا کرتے تھے۔ ریڈیو سیلون اور پھر بھارت کی سب گلوکارائوں کا ضروری اور دلچسپ تعارف ان کا روز مرہ قلمی اشک باری کا مشغلہ تھا۔ ایک ذوق فراواں کی تقسیم کرتے تھے۔ پھر تنگ آ گئے ایک ہے کہ اپنے حلقہ ذوق کی کتابوں کی فہرست تحریر کر دی کہ یہ نصاب فکر ہے۔ آپ ضرور پڑھیں۔ کچھ تھے کہ رجوع الی اللہ کی بات کرتے تھے۔ اور فکر و تدبر کی دعوت دیتے تھے۔ بہت سے ایسے ہیں اور اب بھی اپنے الفاظ کی بازیگری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لاک ڈائون کے حق میں دلائل در دلائل کا سلسلہ ہے یا پھر دوسرے گروہ کے لوگ ہیں کہ معیشت کی بدحالی پر کُڑھ رہے ہیں۔ آنے والے ایام میں قحط سال یا رزق کی تنگی کا نقشہ سامنے رکھ کر روح فرسا ماحول دکھا رہے ہیں۔۔ حزب اختلاف کے قائدین یا حزب اقتدار کے لیڈران کو مذہب سے وہ دلچسپی ہی نہیں جو عوام کو متوازن اور معتدل راستہ فراہم کر سکے۔ علماء اپنے مدارس کے فارغ التحصیل مبلغین ‘ خطباء ائمہ مساجد کی وہ معاشرتی قومیت ہی نہیں کرتے جو کسی بھی تازہ ہنگامی صورت حال سے پیدا شدہ بحران پر قابو پاسکے ۔کورونا عذاب الٰہی ہے، عذاب کا اپنا کوئی معین وقت اور معین دائرہ کار نہیں ہوتا کہ انسانی دماغ اس کا حتمی قیاس کر کے درست ترین تریاق یا درست ترین بچائو تجویز کر سکیں۔ اسباب تو اب بھی بہت سے بتائے جاتے ہیں۔ اسرائیل سے لے کر امریکہ تک کو اس عذاب کا سبب بتایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی طاقتیں اپنی روایتی و سیسہ کاری کے ساتھ اس عذاب اور وبا کے بارے میں پوری حیلہ بازی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ان کا اپنا لائحہ عمل ہے۔ دوا اور شفاء کے نام پر انسانیت کشی کا ایک خاموش مگر وسیع تر یہودی المشہور یہودی پروگرام ہے۔ جانے انجانے میں بہت سے تحقیقی اور ترقی یافتہ اہل علم اس شیطانی لائحہ کو تہذیب اور انسانیت نوازی کے نام پر قوت فراہم کرتے ہیں۔ بلا شبہ ایک اکیلی خاموش حیاتیاتی بیماری نہیں ہے۔ ترتیب ہے۔ و سیسہ کاری اور تمسخر کا طے شدہ طے پروگرام ہے۔ سارس، کانگو‘ ڈینگی اور اب نت نئی اقسام سے یہ کورونا تباہ کن آلات ‘ ہتھیار‘ ادویہ یہ سب یہودیت کا وہ پروگرام جو اپنی افضلیت کائنات کے تاج کو لوٹانے کے لئے برپا کئے جاتے ہیں۔ رہی بات مسلمانوں کی تو وہ تو طے شدہ بات ہے کہ صیہونی اور یہودی پورے عالم میں مسلمانوں کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتے۔ بالکل اسی طرح جیسے برصغیر میں ہندو مسلمانوں کو نابود کرنے کے لئے سو سو بہانے تلاش کرتے ہیں اسی تاریخ اتفاق کے لئے یا حقیقت کی باطنی کیفیت کے اظہار کا نام دیجیے کہ مقبوضہ کشمیر میں 80لاکھ مسلمانوں کو بری قید اور حیوانی جبر کا سامنا ہے۔ ان کی زندگی اور موت ہم معنی ہے۔ دوسری جانب یہودی سازش کا بین الاقوامی سطح پر اظہار ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت کے روحانی مراکز کو بالکل ساکت و تنہا کر دیا جائے۔عوام اور سادہ عوام ذرا سطحی عقلیت اور جذباتی پہلوئوں سے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں اور عقیدے میں ضعف محسوس کرتے ہیں۔ مذہب بیزار کھلی باچھوں سے طنزیہ مسکراہٹ بکھیرتے ہیں۔ یہ سانحہ ہے اور عجیب طرز کا احساس بے کسی ہے وہ لوگ جو مذہبی قیادت پر کسی سبب سے فائز ہیں وہ دوست دشمن کو پہچان میں بہت نادار ہیں۔ ان کے لئے عوامی جذبات کی ترجمانی کا احساس مغلوب ہوجاتا ہے جب مقتدر حلقے ان کا راستہ روکتے ہیں۔ باخبر حلقے بے خبری تشکیک کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ ایک بڑی شرمناک بدقسمتی ہے بار بار اس بے یارومدد گار قومی سانحہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت کیا‘ ہر وقت ہی خود احتسابی سے لے کر قومی احتساب کے سفر کا ہے۔ ہم پسماندہ قوم ہیں۔ہماری قومی فکر کو سدھارنے والے وہ لوگ ہیں جو خود کو ایک بالغ نظر اور وسیع الظرف سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کی ذات ان کے معاشی اور معاشرتی مفادات کی اسیر ہے۔ مشکوک رزق ان کی ذہنی پرورش کو نمو بخشتا ہے۔ مادی مفادات ان کے حسن نظر کا سامان ہے۔ بہت زیادہ توجہ درکار ہے بکھرے ہوئے حالات میں لٹے ہوئے سامان فکر سمیٹنے کے لئے اجڑے دیار کو پھر سے آباد کرنے کے لئے۔ بہت تھک جانا اور پھر سے سوچ کو جوڑنا‘ غم زدہ حالات سے راہ عزم تلاش کرنا کسی مرد خدا ہی کا کام ہے۔ آج رات درویش نے بیدار کیا‘ فون پر حالات کے افق پر بصیرت کا پتہ بتا رہے تھے فرمایا: خیر و شر تو ایک ہی خالق کی تخلیق ہیں۔ روشنی اور اندھیرا بھی اسی دست تخلیق کا اظہار ہے لیل و نہار کی تبدیلیاں اس کی قدرت ہی سے ہوتی ہیں۔ عذاب و راحت بھی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہے۔ موت حیات کا خالق حسن عمل کے امتیاز کو دیکھنا چاہتا ہے۔ بھلا اس سے قرار کہاں۔؟اس کے بغیر قرار کہاں؟ بے چینی میں پوچھ لیا کہ ہم اب کیا کریں۔ جواب تھا۔ بات خدا کی ہے۔ ضمانت مصطفی ﷺ کی ہے۔ جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا خدا وارث ہے۔ بہت کھلی تعلیم ہے۔ ضمانتِ نجات ہے اور سب اہل دین کا اتفاق ہے۔ کہ سر چڑھا جادو بھی زیر قدم ہو گا۔ یہ پڑھا کریں۔ قل اعوذ برب الفلق من شر ما خلق دائمی نبوت کا دائمی فیضان ہے بلائیں پسپا ہو جائیں گی۔ خیرو برکت کی راحت افزا فضائیں تیرے وطن کو خوشبوئوں سے معمور کر دیں گی۔ سو مرتبہ یہ دو آیات پڑھ کر پوری سورۃ فلق پڑھیں اور پوری سورۃ الناس پڑھیں۔ ہر روز 11مرتبہ پڑھیں۔ ہر سو کے آخر میں سورۃ فلق اور والناس پوری پڑھیں۔ اول آخر 24مرتبہ کلمہ اور درود لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ