معزز قارئین!۔ ماہ ربیع الاوّل کے آخری دو دِن جمعتہ اُلمبارک اور ہفتہ کو صدرِ مملکت جناب عارف اُلرحمن علوی نے دو ایسے کام کئے ہیں جو اِس سے پہلے پاکستان کے کسی بھی صدرِ مملکت نے نہیں کئے ۔ بقول شاعر … یہ رُتبہ ٔ بلند ملا ، جس کو مل گیا! 7 دسمبر جمعتہ اُلمبارک کو جنابِ صدر نے اسلام آباد میں منعقدہ "National Voters Day" کی تقریب میں (جس میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا بھی موجود تھے) اعتراف ( Confesson) کیا ہے کہ ’’ مَیں نے 1970ء کی دہائی (یعنی 1970ء سے 1979ء تک ) مَیں نے جب "Dentist" کے طور پر کام شروع کِیا تو ، اپنے کلینک میں ٹیلی فون لگوانے کے لئے 50 ہزار روپے رشوت دِی تھی‘‘ ۔ 8 دسمبر بروز ہفتہ جناب صدر نے عوام کے لئے اسلام آباد میں واقع ایوانِ صدر کے دروازے کھول دئیے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اِس سے قبل کسی بھی صدر نے اِس طرح کے منفرد کام نہیں کئے۔ ماشاء اللہ بقیدِ حیات صدور چودھری محمد رفیق تارڑ ، جنرل (ر) پرویز مشرف ، جناب آصف علی زرداری اور سیّد ممنون حسین نے بھی ؟۔ رشوت دینے کے سلسلے میں صدرِ مملکت کے ’’اعترافی / اقبالی بیان ‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ جب اُنہوں نے "Dentist" کی حیثیت سے کاروبار شروع کِیا تھا تو، وہ بہت ہی خوشحال تھے لیکن ، اُن کا اِتنا معاشرتی اثر و رسوخ نہیں تھا کہ ، وہ رشوت دئیے بغیر اپنے کلینک کا ٹیلی فون لگوا لیتے؟۔ رشوت دینا اور لینا جُرم ہے اور گناہ بھی لیکن کیا یہ گناہِ ؔکبیرہ (بڑا گناہ ) ہے یا گناہِ ؔصغیرہ ( چھوٹا گناہ) ۔ اِس بارے میں فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس شیخ نجم اُلحسن ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر محمد ایاز قبلہؔ یا وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ نور اُلحق قادری کوئی فتویٰ ؔدینے کی پوزیشن میں ہیں؟یا پھر مولانا طارق جمیل صاحب جو، آج کل بالائی طبقے میں بہت "IN" ہیں ؟۔ ضرورت مند لوگ تو رشوتؔ ستانی کو چھوٹی موٹی ’’کارستانی‘‘ (چھوٹی، موٹی، شرارت ، ہوشیاری اور چالاکی ) ہی سمجھتے ہیں لیکن، زیادہ تر لوگ رشوت ؔکو نذرانہ ، تحفہ ، پیش کش یا ہدیہ کا نام دیتے ہیں ؟۔ علاّمہ اقبالؒ نے ’’اپنے مریدوں سے نذرانہ ؔلینے والے پیرانِ حرم ؔ کے بارے میں ’’باغی مرید ‘‘ کے عنوان سے اپنی نظم میں کسی باغی مرید سے یوں کہلایا تھا کہ … نذرانہ نہیں ، سُود ہے، پیرانِ حرم کا! ہر خرقہ ٔ سالوس کے اند ر ہے مہاجنؔ! …O… میراث میں آئی ہے، اُنہیں مسندِ ارشاد! زاغون ؔکے تصرّف میں ، عقابوںؔ کے نشیمن! معزز قارئین!۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے دَور میں لوگوں کے ایک بپھرے ہُوئے ہجوم نے ایک گنہگار ؔکو پکڑ لیا ، لوگ اُسے پتھر مار مار کرہلاک کردینا چاہتے تھے تو ، حضرت عیسیٰ ؑ نے اُن سے پوچھا کہ ’’ کیا تُم میں سب کے سب ایسے لوگ ہیں جنہوں نے آج تک کوئی گناہ نہ کِیا ہو؟‘‘۔ تو ہجوم منتشر ہوگیا ۔ اِس واقعہ/ فلسفہ کی روشنی میں شاعر نے کہا تھا کہ … مجھ کو ہے اپنے گنہ کا اعتراف! پہلا پتھر ، کون مارے گا مجھے! عیسائی مذہب کے لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کے لئے کسی گرجا (Church) میں جا کر پادری (Priest) سے اپنے گناہوں کا اعتراف (Confession) کرلیتے ہیں۔ مَیں نے کئی فلموں میں دیکھا ہے کہ اُس گوشے میں جسے "Confessional" کہا جاتا ہے۔ پادری صاحب اور گنہگار کے سِوا کوئی تیسرا شخص نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں گنہگار / مجرم ، عموماً تھانے یا احتساب کے کسی ادارے میں جسمانی ریمانڈ کے دَوران اپنے ہر گُناہ / جُرم کا اعتراف کرلیتا ہے یا پھر چھوٹی / بڑی عدالت میں ۔ اگر صدرِ محترم عارف علوی صاحب 1970ء کی دہائی میں محکمہ ٹیلی فون کے کسی بڑے افسر کو ٹیلی فون لگوانے کے لئے 50 ہزار روپے کی رشوت / نذرانہ پیش کرنے کا اپنا واقعہ بیان نہ کرتے تو ، اُن کی کوئی مجبوری نہیں تھی ۔ مَیں تو اِسے جنابِ صدر کے کردار (Character) کی عظمت ہی کہوں گا یا ’’جرأت رندانہ ‘‘ لیکن، کیا یہ حُسنِ اتفاق ہے یا ’’ باہمی اتفاق ‘‘ کہ جب، صدرِ مملکت کے اعترافی/ اقبالی بیان کے موقع پر ، چیف الیکشن کمشنر جسٹس( ر) سردار محمد رضا صاحب بھی وہاں موجود تھے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ سابق جسٹس صاحب نے صدرِ محترم کے اِس بیان کا کوئی نوٹس لیا ہے یا نہیں؟ اور اگر لیا ہے تو کیا وہ "Election Laws" کے مطابق منتخب صدر مملکت کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے؟۔ معزز قارئین!۔ تادمِ تحریر صدر عارف علوی صاحب کی طرف سے ماضی میں رشوت دینے کے اعتراف پر پاکستان تحریک انصاف کی مخالف سیاسی / مذہبی جماعتوں کے قائدین میں سے کسی نے بھی اِس کا نوٹس نہیں لِیا۔ یہاں تک کہ ’’انواع و اقسام کے مقدمات میں ملوث ،پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے قائداعظمؒ کی کُرسی پر بیٹھنے والے کوٹ لکھپت جیل میں مقیم میں شہباز شریف نے بھی صدرِ مملکت کے اِس بیان کو کوئی اہمیت نہیں دِی؟۔ جمعیت عُلماء اسلام فضل اُلرحمن گروپ کے امیر صاحب نے بھی نہیں ۔ ممکن ہے کہ اِن میں سے کسی نے وُکلاء سے مشورہ کِیا ہو اور وُکلاء نے اُن قائدین کو بتایا کہ ’’ جنابِ صدر کے خلاف رشوت دینے کا مقدمہ تو "Time Bard" ہوگیا ہے ۔ 1970ء کی دہائی میں ’’ سِندھڑی‘‘ کے وزیراعظم پاکستان جناب محمد خان جونیجو نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ مَیں وزیراعظم منتخب ہونے سے پہلے بھی اپنے حلقے کے پٹواری کو رشوت دیتا تھا اور اب بھی دیتا تھا لیکن، جونیجو صاحب کے اِس اعتراف کو ہنسی / مذاق میں اُڑا دِیا گیا تھا ۔دراصل پٹواریؔ ہر دَور میں "Powerfull" رہا ہے ۔ پرانے دَور میں پنجاب کی کسی دیہاتی خاتون نے اپنے کوٹھے کی منڈیر پر بیٹھے ہُوئے کوّے سے مخاطب ہو کر اپنی سُریلی آواز میںکہا تھا کہ … کوٹّھے اُتّوں اُڈ ،کانواں سَدّ پٹواری نُوں جِند ،ماہیے دے ناں ، لاواں یعنی۔ ’’اے پٹواریٖؔ! ۔ میرے کوٹھے سے اُڑ کر پٹواریؔ کے پاس جا ۔ اُسے بلا لا ، مَیں اُسے کہوں کہ وہ میری زندگی میرے محبوب کے نام لکھ دے ‘‘۔ "Open Door Policy" معزز قارئین!۔ صدر ِ مملکت عارف اُلرحمن کو داد تو دینا پڑے گی کہ،وہ پاکستان کے پہلے صدر ہیں جنہوں نے عوام کے لئے ایوانِ صدر کے دروازے کھول دئیے وہ 8 دسمبر کو اپنی اہلیہ ٔ ( خاتونِ اوّل) محترمہ ثمینہ علوی سمیت "Balcony" میں کھڑے ہو کر شہریوں کو دیکھ کر اظہار مسرت کر رہے تھے ۔ ہندوستان کے پرانے (ہندو اور مسلمان) راجائوں/ بادشاہوں کے’’جھروکا درشن‘‘ کا رواج تھا۔ راجا/ بادشاہ ہر روز اپنے محل کے جھروکے "Balcony" (دریچے، برآمدے، روشندان یا کھڑکی) میں کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر پرجا/ رعیت/ عوام کی طرف دیکھ کر اپنا ایک یا دونوں ہاتھ ہلاتے اور اُ س کے درشن ( زیارت ) کے لئے جھروکے کے نیچے کھڑے لوگ اُس کی جے/ زندہ باد کے نعرے لگاتے۔ (راجا/ بادشاہ بیمار بھی ہوتا تو اُس کے درباری اُسے جھروکے میں بٹھا کر اُس کے ہاتھ ہلانے کا بندوبست بھی کر دیتے تھے) ۔ صدرِ مملکت نے اپنے اور خاتونِ اوّل سے ملاقات کے لئے مہینے میں دو بار ایوانِ صدر کھولنے کا پروگرام بنایا ہے ۔ بہت اچھی بات ہے لیکن، ظاہر ہے کہ اِسلام آباد سے باہر کے لوگ جب، اپنے ’’ محبوب صدر‘‘ کی زیارت کے لئے اسلام آباد آئیں گے تو، اُن کے لئے ایوانِ صدر میں ’’منجی بسترے ‘‘ کا انتظام تو نہیں ہوسکتا لیکن، کم از کم خواتین کے لئے تو ’’ چائے پانی ‘‘ کا انتظام لازمی ہے اور ہاں ! صدرِ محترم ! ۔’’ قائد ِ عوام اور فخرِ ایشیا‘‘ کہلانے والے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو عوام ، پیار اور محبت سے صِرف بھٹو ؔ کہا کرتے تھے اور یہ نعرہ بھی لگایا کرتے تھے کہ ’’ بھٹو جئے ہزاروں سال‘‘۔ اگر آپ سے محبت کرنے والے عوام آپ کا پورا نام ’’ عارف اُلرحمن علوی‘‘ نہ بھی لیں تو ’’علوی جئے ہزاروں سال ‘‘ کے نعرے پر ناراض نہ ہوں ۔ معزز قارئین!۔ مجھے تو ’’کُھلّی ڈُلھی زبانِ صدر اور کُھلّا ڈُلھا ایوانِ صدر ‘‘ اور صدرِ محترم کی "Open Door Policy" بہت اچھی لگی!۔