پاکستان میں انٹیلی جنس سے وابستہ دو ہی افراد کووہ افسانوی شہرت ملی ہے جو شائد ہی کسی فلم اسٹار کے حصے میں بھی آئی ہو ایک تو جنرل حمید گل مرحوم تھے جن کے بارے میں آئی ایس آئی کے اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ اگر ہم موحد نہ ہوتے تواس وقت حمید گل صاحب کا بت پوج رہے ہوتے اور دوسرے سرخ و سپید چہرے والے پنج پیر کے فربہی مائل میجرعامر ہیں جو کبھی کاکول سے چھریرے بدن پر کلف لگی کڑک وردی اور چمکتے جوتوں کے ساتھ نکلے تھے لیکن کپتانی میں انہیں اپنی وردی اتارنی پڑی کہ انہیںآئی ایس آئی نے مانگ لیا تھا اس وقت کے کیپٹن عامر کا کاکول ریکارڈ اور سروس اسکے تابناک مستقبل کی گواہی دے رہی تھی کہ بالوں میں سفیدی کے ساتھ ہی اس افسر کے کالر میںجرنیلی کی ’’سرخی ‘‘آچکی ہوگی لیکن انٹیلی جنس اس سرخی کی راہ میں حائل ہوگئی میجرعامر کو وقت سے بہت پہلے ہی ریٹائرہونا پڑااب وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں لیکن ان کے اندر کا انٹیلی جنس افسر انہیں حالات حاضرہ سے جوڑے رکھتاہے کبھی کبھارمیڈیا میں انکے دوست کھینچ کھانچ کر انہیں کسی نہ کسی ٹاک شو میںلے آتے ہیں اوروہ ایسا کچھ نہ کچھ کہہ دیتے ہیں جس کا ذکر کیوباکے مہکتے سگاروںکے کش لگانے والوں کی ’’ایویننگ پارٹیوں ‘‘ میں بھی ہوتا ہے اورزیریں لب تلے چٹکی بھر نسوار رکھنے والوں کی فرشی نشستوں میں بھی ۔ میں آج تک میجر عامر سے نہیں ملاان کی بہت سی باتوں سے صرف اختلاف نہیں شدید اختلاف رکھنے کے باوجودمیجر صاحب سے ملنے کی دلی خواہش ہے میں انہیں کھراسچا اور بہادر پاکستانی سمجھتا ہوں میرے دل میں ان کا احترام مزید بڑھ جاتا ہے جب انہیں ایک نیوز چینل پرقسم کھاکر یہ کہتا ہوا دیکھتا ہوں کہ’’ پاکستان کے خلاف میرا سگا بیٹا بھی ہوا تو خدا کی قسم میں نہیں چھوڑوں گامیں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں جس دن میرا سگا بیٹا پوتا پاکستان کے خلاف ہو گیامیں مسلمان کی موت نہیں مروںگا اگر میں نے اسے چھوڑ دیا‘‘ ۔ میجر عامر کے بارے میں رؤف کلاسرا صاحب نے رواں ماہ کی سترہ جولائی کوایک کالم لکھا جس کے بعد برادرم سلیم صافی نے انہیں پروگرام میں بلالیا اس پروگرام میجر عامر صاحب نے ایسی بہت سی باتیں کہیں جنہیں انکشافات کہا جا سکتاہے انہوں نے مشرف دور میں کی مغلوب پالیسیوں پر نکتہ چنی کی ہمار ی غلطیوں کا ذکر کیاا ور ساتھ ہی پشتونوں کے بارے میں کہا کہ انہیں ریاست کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھانا چاہئے تھے یہاں پشتون تحفظ موومنٹ کا بھی ذکر ہوا میجر صاحب نے کہا کہ پی ٹی ایم کو غدار اور وطن دشمن مت کہو انہیں بٹھاؤ ان سے بات کرویہ سیاسی جماعت ہے ان کے دو اراکین قومی اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔۔۔انہوں نے جمعہ خان صوفی،شاہ محمد شاہ اور راجہ انور کی مثالیں دیں جو کل تک ریاست سے لڑ رہے تھے اور آج ریاست کے ساتھ کھڑ ے ہیں ۔ میجر عامر صاحب کی یہ بات بالکل درست ہے کہ بڑے سے بڑا مسئلہ بھی مکالمے سے ہی حل ہوتا ہے ریاست ماں جیسی ہوتی ہے اور ماں کو ناراض بچوں کے غصے کے باوجودپیار پچکار کرسینے سے لگا لینا چاہئے لیکن میجر صاحب شائد بھول گئے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اگر ایک ہاتھ ہٹالیا جائے تو دوسرا کچھ بھی کر لے تالی نہیں بجے گی ،پی ٹی ایم کوبھی ریاست کو بطور ماں تسلیم کرنے کا اعلان اور اظہار کرنا ہوگا مجھے بتائیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے پروگراموں میں پاکستانی پرچموں کا داخلہ کیوں بند ہے؟ سوشل میڈیا اب ایک ایسا آرکائیو بن چکا ہے جس سے جب جس کا جی چاہے استفادہ کرلے ،اس آرکائیو میں29اپریل 2018وکے روز سوات کے جلسے کی وہ فوٹیج موجود ہیں جس میں قومی پرچم اٹھائے نوجوان کو پی ٹی ایم کے پنڈال سے نکال باہر کیا گیا ۔۔۔میجر صاحب یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا پی ٹی ایم کے کسی جذباتی کارکن نے کیا ہوگااس عمل کو ’’آفیشل‘‘ کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ بالکل درست ،نیوز چینلز کو منظور پشتین کا موقف بھی لیناچاہئے تھا اور اگر ان سے کوتاہی ہوئی تو پی ٹی ایم کی قیادت کو پاکستانی پرچم کے ساتھ ازخود وڈیو بیان جاری کرنا چاہئے تھا اس فعل کی مذمت کرنی چاہئے تھی کہ ہمارا جھگڑا ناانصافیوں سے ہے ہمارا احتجاج نظر انداز کئے جانے پر ہے لیکن کیا ایسی کہیں کوئی پریس کانفرنس ہوئی اور کیا یہ پہلا اور آخری واقعہ تھا؟ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اپنے کسی انٹرویو میں میجر عامر نے آئی ایس آئی کے بارے میں کہا تھا کہ اس نے ایک سپرپاور کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی خفیہ جنگ لڑی ۔۔۔ ساتھ ہی انہوں نے افغانستان کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ افغانستان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے …یہ تاریخی سچ ہے شواہدموجود ہیںکہ قیام پاکستان سے پہلے اس کے آثارنمایاں ہوتے ہی گریٹرپشتونستان کا شوشہ کابل ہی سے چھوڑا گیا پاکستان کے خلاف پہلی جارحیت طورخم پار کے ’’دوست ‘‘ کی جانب سے ہوئی تھی ،اسی پڑوسی نے چمن سے ملحقہ پاکستانی علاقے کا مطالبہ بھی کیا تھااور لمحہ ء موجود تک وہ پاک افغانستان سرحد کو مستقل سرحد تسلیم کرنے سے انکاری ہے ،میجر صاحب نے انٹرویو میںدلیل کے طور افغانستان میں الذوالفقار کے کیمپوں کا ذکر کیا ہے آج الذوالفقار کی جگہ بلوچ علیحدگی پسندوں نے لے لی ہے ،افغانستان گذشتہ برس بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر اسلم بلوچ کی چھ ساتھیوں سمیت قندھار میں مارے جانے کی آج تک توجیہہ پیش نہیں کرسکا کہ وہ وہاں کیا کاشت کررہا تھا اب بتائیں کہ اسی افغانستان کی چھاتیوں میں پی ٹی ایم کے لئے دودھ کا اترے رہنا معنی خیز نہیں ؟یہاںتک کہ افغان صدر اشرف غنی صاحب اپنی تقریب حلف برداری میں پی ٹی ایم قیادت کو مدعو کرنا نہیں بھولتے منظور پشتین گرفتار یہاں ہوتے ہیں اور افغان صدر کو تشویش کا مچھر وہاں کاٹتا ہے پھر منظور پشتین کی افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سربراہ سے ملاقات…یہ سب کیا ہے ؟ رہی بات قومی اسمبلی میں حاضری کی تو اس سے بڑی حاضری ایم کیو ایم کے الطاف حسین کی نہ تھی؟کیایہ حاضری انہیںبھارت کے پے رول پر آنے سے روک سکی؟ ایم کیو ایم لندن سیکریٹریٹ کے محمد انور کے اعتراف کے بعدباقی کیا بچتا ہے ؟ان حقائق کو سامنے رکھ کر پی ٹی ایم پر اٹھائے جانے والے سوالات معنی نہیں رکھتے تو اسے دی جانے والی کلین چٹ کو وقعت کیسے دی جاسکتی ہے !!!