ہم تین بھائی شادی میں شرکت کیلئے رحیم یار خان میں ہیں، خالد بھائی اور ہارون الرشید کے ساتھ۔ بارات کتنے بجے آئے گی؟ہارون الرشید نے پوچھا۔ 12بجے دوپہر کیلئے کہہ رہے تھے مگر ایک بجے سے پہلے آنے کی نہیں۔ یار، بڑی گڑ بڑ ہوجائے گی، اخبار کے لیے ابھی کالم بھی نہیں بھیجا اور رات دس بجے سے پہلے ہر صورت لاہور میںدفتر پہنچنا ہوگا، ٹیلی ویژن کے پروگرام سے رخصت تو ممکن ہی نہیں، پھر اچانک میرے ہاتھ میں پکڑی کتاب کو دیکھتے ہوئے پوچھا ، یہ کونسی کتاب ہے؟’’کمالِ ہم نشیں‘‘۔ کیا کہا؟’’کمالِ ہم نشیں‘‘ میں نے دہرایا۔ یہ کون باکمال ہے جس نے عجیب سادہ اور بے ساختہ انکساری کے ساتھ اپنا آپ اور اپنا ہنر اپنے قرب وجوار کو بخش دیا۔خود کو محض عکس جانا، آئینے کا عکس ، سارا حسن عمل عزیزوں اور دوستوں کے کھاتے میں ڈال دیا۔ واہ واہ ، کیا خوش ذوق صاحب تصنیف ہیں۔ کون ہیں یہ صاحب؟’’سید بابر علی‘‘۔ تعجب سے بولے ، سید بابر علی؟ وہی ’’ لمز یونیورسٹی والے‘‘ عابدہ حسین اور فخر امام کے ماموں؟ ہاں، ہاں وہی۔حد ہوگئی، میں انہیں ایک کامیاب پڑھا لکھا، صنعتکار اور بزنس مین خیال کرتا رہا، یہ تو بڑے صاحبِ ذوق نکلے۔ مگر میں نے یہ کتاب ابھی تک نہیں دیکھی، حیرت ہے۔کچھ پڑھ کر سناؤ ، کہیں سے بھی، ایک صفحہ پر نشان لگایا تھا ، وہیں سے پڑھتا ہوں۔ یہ مکالمہ ہوا ہارون الرشید کے ساتھ۔آنکھ کھلی تو قریب میز پر رکھی کتاب اٹھائی سید بابر علی کی ’’کمالِ ہم نشیں‘‘، جو ان کی انگریزی میں لکھی بائیوگرافی کا اردو ترجمہ ہے ۔ کتاب کھول کر دیکھا تو صفحہ 84نشان زد کیا ہوا تھا، آج طالبان کے افغانستان پر لکھنے کا ارادہ تھا، ارادے کو مؤخر کرکے مذکورہ کتاب صفحہ 84کا اقتباس حاضر ہے۔ ’’متحدہ ہندوستان میں آخری دنوں جب پاکستان کی سرحدوں کا فیصلہ کیا جارہا تھا، لاہور میں ڈیوس روڈ پر واقع ہمارا گھر ’’نشیمن‘‘ مسلم لیگ کی مختلف تیاریوں کا مرکز بنا ہوا تھا، اور یہ کام سرظفراللہ خان کی قیادت میں ہورہا تھا، وہ ہمارے خاندان کے قریبی دوست تھے اور قیام پاکستان کے فوراً بعد قائد اعظم نے انہیں پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا تھا، سرظفر اللہ خان سے کہا گیا تھا کہ وہ لیک سکسیس نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے دفتر میں جانے والے پاکستانی وفد کی قیادت کریں۔ میرے والد نے سرظفر اللہ سے میرے متعلق کہا اگر ممکن ہو تو وہ نیویارک میں اپنے قیام کے دوران مجھے اپنے معاون کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع دیں۔ سرظفر اللہ خاںمجھے بچپن سے جانتے تھے اور در حقیقت انہوں نے 1945/46ء میں مجھے امریکی یونیورسٹی میں داخلہ دلانے کی کوشش کی تھی، امریکہ میں جب اپنے کار کے طویل سفر سے واپس آئے تو سرظفر اللہ خاںکا خط موصول کرکے بے حد خوش ہوا، جس میں مجھے نیویارک میں پاکستانی وفد کے ساتھ کام کرنے کی دعوت دی گئی تھی، میں نے کیمبرج ، ،ماسا چیوسٹس میں ستمبر کا مہینہ لیور برادرز کے ساتھ گزارا، جہاں ان کا امریکی صدر دفتر واقع تھا، لیور برادرز کے ساتھ ایک ماہ قیام کے بعد میں خوش تھا کہ پاکستانی وفد کا حصہ بننے کے لیے نیویارک جارہا ہوں۔ سرظفر اللہ خاںبہت مہربان شخص تھے، انہوں نے مجھے بہت آرام سے رکھا،اس وفد کے دیگر ارکان میں حیدرآباد دکن کے میر لائق علی، امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر ایم اے ایچ اصفہانی،عبدالستار پیرزادہ ، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، ایم ایوب آئی سی ایس (بعد ازاں سی ایس پی)شامل تھے جو اس وفد کے سیکرٹری جنرل تھے، ابتدائی اجلاس فلشنگ میڈوز کے سرسبز علاقے میں منعقد ہوا جس میں تمام ارکان نے شرکت کی۔ یہ علاقہ مین ہیٹن اور لیک سکسیس کے درمیان واقع ہے۔ میرے لیے یہ انتہائی پر مسرت موقع تھا، اس وقت میری عمر صرف 21سال تھی، ایک نوجوان کا اقوام متحدہ کی عمارت میں داخل ہونا بلکہ کئی مواقع پر اپنے ملک کے نمائندے کے طور پر کمیٹی اجلاسوں میں شرکت کرنا بھی میرے لیے انتہائی خوشگوار تجربہ تھا کیونکہ ہمارا وفد بہت کم ارکان پر مشتمل تھا۔ ایک سوال جس پر بحث ہورہی تھی وہ یہ تھا کہ اسرائیل کو تخلیق کیا جائے یا نہیں؟چوہدری سرظفر اللہ خاںفلسطینی نقطہ نگاہ کا دفاع کرنے والے مرکزی نمائندے تھے، ان کا انتخاب مسلمانوں نے کیا تھا جن میں عرب بھی شامل تھے۔ ان کا علم ومعلومات انتہائی وسیع تھیں اور اسی کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے فلسطینی تاریخ کو اس کے ابتدائی دور سے شروع کیا۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح انہوں نے شریف مکہ کا ذکر کیا اور کس طرح سے پہلی جنگ عظیم کے بعد فاتحین نے پوری ترک سلطنت کا نقشہ بنایا تھا اور شریف کے دو بیٹوں کو عطا کیا تھا جن میں سے فیصل کو عراق کا سربراہ اور عبداللہ کو اردن کا سربراہ بنایا گیا تھا،لیکن اس سے قبل پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے ترکوں کو شکست دی اوربرطانیہ چاہتا تھا کہ امریکہ جنگ میں شامل ہو۔لہٰذا انہوں نے فلسطین میں آزاد اور خود مختار یہودی سلطنت کے قیام کی پیشکش کی جسے ’’بالفوراعلامیہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد چوہدری صاحب نے اس تاریخ کا احاطہ کیا اور کہا کہ یہودیوں کیلئے اس علاقے میں کوئی جگہ نہیں۔ اگر آپ ہولوکاسٹ پر یہودیوں کی تلافی کرنا چاہتے ہیںتوان کی ریاست کو یورپ میں ہونا چاہیے نہ کہ مغربی ایشیا میں۔ انہوں نے اس مؤقف کا ڈٹ کر دفاع کیا،ظاہر ہے کہ امریکیوں نے آغاز ہی سے سخت گیر مؤقف اختیار کررکھا تھا،برطانیہ دونوں طرف کھیل رہا تھا جس کی وجہ تیل اور دیگر مفادات تھے۔ روس کا جھکاؤ کس طرف تھا؟ یہ واضح نہیں تھا۔ انہیں ابھی اپنا مؤقف سامنے لانا تھا، روس کی نمائندگی وشنسکی کررہا تھا۔ وہ بہت اچھا مقرر تھا اور 1932ء کے ماسکو مقدمے میں وکیل تھا جب اسٹالن نے اپنے حریفوں سے نجات حاصل کی، یہ وشنسکی تھا جو ان کا جلاد تھا کیونکہ اس کی زبان تلوار کی دھار کی طرح کام کرتی تھی، وہ روسی زبان میں بات کرتا تھا۔ اسرائیل پر جاری بہت بڑے ڈرامے کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ بھی دیکھا کہ امریکیوں نے کس طرح جنوبی امریکیوں کو اپنے قابو میں رکھا ہوا تھا، جب معاملہ ووٹنگ تک پہنچا تو جنوبی امریکی ملکوں ، ارجنٹائن سے میکسیکو تک سب نے اپنے آپ کو ایک بلاک کی صورت میں یکجا کیا اور دیکھتے رہے کہ امریکی کیا کرتے ہیں؟ اور جب امریکیوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کردیئے تو انہوں نے بھی ان کی تقلید کی۔ روس کو بھڑکانے کے لیے امریکہ نے جنوبی امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملک ’’نکاراگوا‘‘کو کہا وہ روس کے خلاف کچھ کہے۔ جواب میں وشنسکی نے کہا کہ مجھے ایک قدیم روسی کہانی یاد کرادی ہے کہ’’ایک ہاتھی ایک گاؤں کے قریب سے گزررہا تھا اور ایک کتا سامنے آگیا اور ہاتھی پر بھونکنا شروع کردیا اور نکاراگوا! تم وہ کتے ہو۔‘‘انہوں نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ میں نے ایک بار چوہدری صاحب سے کہا ’’آپ ترکوں سے بات کیوں نہیں کرتے ‘‘۔ یہ وہ وقت تھا جب یونان اور ترکی کے درمیان کچھ مسائل چل رہے تھے اور روس ان دونوں ملکوں کو ہتھیانے کی کوشش کررہا تھا اور انہیں اپنے مشرقی یورپی بلاک میں شامل کرنا چاہتا تھا جس کی امریکی مخالفت کررہے تھے۔ یونان اورترکی میں خا نہ جنگی چل رہی تھی اور وہاں انقلاب آنے کی سی صورتحال تھی۔ چوہدری صاحب نے مجھے پنجابی میںکہا کہ ’’ترک امریکہ کے خلاف اپنے خواب میں بھی ووٹ نہیں ڈال سکتے ۔‘‘ 72سال پہلے پیش آنیوالے واقعات پر مشتمل ’’کمالِ ہم نشیں‘‘کا یہ اقتباس عالمی برادری میں فلسطین کیلئے پاکستان کی کوششوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح آج پھر ہمیں طالبان کے افغانستان کیلئے ذہانت اور بے جگر ی سے مقدمہ پیش کرنے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔