وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے درمیان ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ کی کشمیر پہ ثالثی کی پیشکش غیر متوقع نہیں تھی۔افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے پس منظر میںیہ ثالثی بالکل فطری نظر آتی تھی۔بعد میں امریکی وزارت خارجہ اور صدر ٹرمپ کی حمایت نے اس تاثر کو مضبوط بھی کیا کہ امریکہ طالبا ن کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی تک پاکستان کو اپنی حمایت سے مایوس نہیں کرنا چاہتا۔امر واقع لیکن یہ ہے کہ اپنی ابتدا سے ہی جموں اور کشمیر میں امریکی مداخلت ایک تلخ حقیقت رہی ہے۔پاکستان اور بھارت چونکہ برطانوی سامراج سے آزاد ہوئے تھے اور مسئلہ کشمیر وہ ٹائم بم تھا جو برطانیہ دونوں ممالک کے درمیان رکھ گیا تھا اس لئے اس خاص مسئلے میں امریکی مداخلت کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔سچ تو یہ ہے کہ امریکی وزارت خارجہ اور سی آئی اے پوری طرح ابتدا سے ہی مسئلہ کشمیر کو ثالثی کے نام پہ الجھانے میں ملوث رہی ہے۔ معروف بھارتی صحافی سندیپ بمزے، جن کے دادا تقریبا بیس سال شیخ عبداللہ کے او ایس ڈی رہے، اپنی کتاب America’s Great Fishing Expedition in Kashmir میں کشمیر میں امریکہ مداخلت کی تاریخ بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ بھارت کو پورا یقین ہے کہ امریکہ اپنی Westphalian sovereignty کے نظریہ کے تحت مسئلہ کشمیر پہ بلا شک وشبہ اور پوری قوت سے بھارت کا حامی ہے۔Westphalian sovereignty دراصل جدید دنیا کا وہ نظریہ ہے جس کے تحت ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی یک جہتی اور استحکام کے لئے کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے کا مجاز ہے اور است اقوام متحدہ کا چارٹر قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے اور اس مقصد کے لئے کشمیر میں بھارت کی افواج کی موجودگی اور اس کے جبر و تشددکو بالکل جائز سمجھتا ہے۔جولائی 2016 ئمیں اس وقت کے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی واضح الفاظ میں کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے چکے ہیں اور یہ بھی کہ امریکہ بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یہی امریکہ کی حقیقی کشمیر پالیسی ہے اسی لئے مودی نے ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش چٹکیوں میں اڑا د ی تھی۔ میں نے پہلے بھی کئی بار عرض کی ہے کہ کشمیر میں حالیہ بھارتی اقدام جس میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی ہے ایک علیحدہ قانونی مسئلہ ہے جسے کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی سنگین خلاف ورزی کے پیچھے دبایا جارہا ہے جو بالکل ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ کشمیر کا الحاق کس کے ساتھ ہونا ہے اس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قرادادوں کے تحت استصواب رائے کے ذریعے ہونا ہے نہ کہ کٹھ پتلی حکومت اور لاکھوں بھارتی افواج کی موجودگی میں عام انتخابات کے ذریعے۔ اصل مسئلہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف وزری نہیں بلکہ کشمیر کی قانونی حیثیت کا خاتمہ اور استصواب رائے کا انعقاد نہ ہونا ہے۔ بھارتی ظلم و تشدد اور عمران خان کی کامیاب ڈپلومیسی نے جہاں اس معاملے کو دنیا بھر میں اجاگر کردیا ہے وہیں عالمی ضمیر ، اگر وہ کوئی ہے ، کی تمام تر توجہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی طرف ہوگئی ہے۔یعنی اگر بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے باز آجائے تو کیا مسئلہ حل ہوجائے گا؟یا بھارت کو کشمیر پہ قبضہ برقرار رکھنے کا سرٹیفیکیٹ مل جائے گا؟ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب کشمیری ایک آزادانہ استصواب رائے کے ذریعہ خود بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیں۔برسوں سے جاری بھارتی ظلم و ستم نے یہ ناممکن بنا دیا تو اس کا علاج اب ایک مربوط نسل کشی کا منصوبہ ہے جو وہاں کامیابی سے جاری ہے۔اس کے بعد استصواب رائے کا ڈول ڈالا بھی گیا تو وہاں سے ہندوتوا کے ووٹ ہی برآمد ہونگے۔اس ساری تقریر دل پذیر کے غبارے سے ہوا اسی وقت نکل جاتی ہے جب ہم کشمیر میں امریکی مداخلت کا جائزہ لیتے ہیں اور جیسا کہ سندیپ بنزے فرماتے ہیں کہ امریکہ تو کشمیر کو بھارت کا حصہ سمجھتا رہا ہے۔اگرچہ اس کی ابتدا امریکہ نے کشمیر میں اپنی ثالثی یا مداخلت سے کی تھی۔آزادی کے فورا بعد ہی امریکہ کشمیر میں متحرک ہوگیا تھا اور اس نے کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ سے رابطے شروع کردیئے تھے۔ اس مقصد کے لئے بھارت میں امریکی سفیر لائے ہینڈرسن اور ان کی اہلیہ ایلیس نے کئی بار شیخ عبداللہ سے ملاقاتیں کیں۔پچاس کی دہائی میںا مریکہ کا کشمیر کے معاملے میں موقف حیران کن حد تک ایک خودمختار ریاست کے حق میں تھا اور وہ اس سلسلے میں کشمیریوں کے حق رائے دہی کو پرکاہ کی اہمیت بھی نہیں دیتا تھا۔امریکہ جو اس تنازعے کا کوئی فریق بھی نہیں تھا، اسے کیوں ایک خود مختار ریاست دیکھنا چاہتا تھا اس کو سمجھنے کے لئے بقراط ہونا ضروری نہیں۔ نو آزادشدہ بھارت نو آزاد شدہ پاکستان سے ہر لحاظ سے مضبوط تھا اور اس وقت ہر عالمی طاقت بشمول امریکہ، برطانیہ اور خطے میں تیزی سے رسوخ بڑھاتا ہوا روس کشمیر کو خودمختاری کے نام پہ پاکستان سے دور رکھنا چاہتے تھے۔روس کمیونزم کے نام پہ اپنا حلقہ اثر بڑھاتا جارہا تھا۔غالبا اسی خدشے نے دنیا بھر کی طرح امریکہ کو کشمیر میں بھی مداخلت پہ مجبور کیا۔جواہر لال نہرو کا جھکائو روس کی طرف تھا ۔ کشمیرمیں امریکی سی آئی اے پوری طرح سرگرم ہوگئی۔اس کا مقصد کشمیر کو کمیونسٹ بھارت کے پنجے سے بچانا بھی تھا لیکن اسے اسلام کے نام پہ بننے والے پاکستان کی گود میں بھی نہیں گرنے دینا تھا۔ یہ کس قدر ناانصافی تھی کہ کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی برطانوی تسلط اور ڈوگرہ راج سے نکل کر فطری طور پہ پاکستان کے ساتھ الحاق سے خودمختاری کے نام پہ بچائی جارہی تھی۔1951 ء میں ایک امریکی سی آئی ایجنٹ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ جو حال ہی میں منظر عام پہ آئی، کشمیر میں امریکی سی آئی اے کی مداخلت کا پول کھول دیا۔اس نے بتایا کہ وہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے فرینک کولنز اور ہاورڈ مئیرزہر اس موقع پہ جب سلامتی کونسل میں کشمیر پہ اجلاس ہوتا، نیویارک چلے جاتے جہاں سلامتی کونسل کے نمائندے ان کے منتظر ہوتے۔فرینک کولنز پانچ جولائی کو دہلی پہنچاجہاں امریکی سی آئی اے پہلے ہی موجود تھی۔یہ قابل غور ہے کہ امریکی سی آئی اے بھار ت میں کس دھڑلے اور کامیابی کے ساتھ کام کررہی تھی۔کولنز اس وقت وہاں پہنچا جب امریکی سینیٹر اور کشمیر کے لئے اقوام متحدہ کے نمائندے ڈاکٹر فرینک گراہم بھی وہاں موجود تھے۔ لہٰذا اسے شک ہوا کہ شاید کشمیر کا ہی کوئی معاملہ ہے جو طے ہونے جارہا ہے۔اس کے علاوہ اسی وقت سلامتی کونسل نے کشمیر کے معاملے پہ اپنا غیر طے شدہ اجلاس بلا لیا تھا۔یہ اجلاس پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ کی جانب سے متنازعہ علاقے میں قانون ساز اسمبلی کے قیام کے خلاف لکھے گئے خط کی بنیاد پہ بلایا گیا تھا۔ جبکہ ہم اسے پاکستان کی کشمیر میں جاری مداخلت جو کسی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی تھی، رپورٹیں دے رہے تھے اور وہ اسے مسلسل نظر انداز کررہی تھی۔(جاری ہے)