بھارتی صدر نے آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی ترمیم پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس ترمیم کے بعد جموں و کشمیر کو ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔ ریاست جموں و کشمیر کی جگہ اب مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بن جائیں گے جن میں سے ایک کا نام لداخ اوردوسرے کا جموں و کشمیر ہو گا۔ دونوں علاقوں کا انتظام لیفٹننٹ گورنر چلائیں گے۔ شق 370کے خاتمہ کے بعد جموں و کشمیر کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہو گی تاہم لداغ میں اسمبلی نہیں ہو گی۔ شق 370کی اس ذیلی شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے مطابق بھارتی صدر کسی قسم کی تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔ تنازع کشمیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ قانون آزادی ہند کے تحت برصغیر کی ریاستوں کو اس بات کا اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔ کشمیر صدیوں سے جغرافیائی‘ لسانی‘ مذہبی اور معاشی رشتوں کے اعتبار سے پاکستان میں شامل علاقوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ کشمیر کی 85فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جو بھارت کے ساتھ الحاق کے خلاف تھے اور اب تک تحریک آزادی کو فعال رکھے ہوئے ہیں۔ مہاراجہ ہری سنگھ جانتے تھے کہ ان کی رعایا مسلمان ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے پہلے خود مختار رہنے کی کوشش کی اور بعدازاں مشروط طور پر بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے جو شرائط پنڈت نہرو سے منوائیں ان کو شق 370کی شکل میں بھارتی آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس شق کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ اور اختیارات دیے گئے۔ ریاست کشمیر کا انتظام کانگرس اور بھارت نواز شخصیات کے حوالے کیا گیا۔ ان ہی لوگوں نے نام نہاد جمہوری نظام کو چلایا۔ شیخ عبداللہ ‘ فاروق عبداللہ‘ بخشی غلام محمد‘ محبوبہ مفتی‘ عمر فاروق عبداللہ جیسے کشمیری سیاستدانوں نے ہمیشہ اپنے ہم مذہب کشمیریوں کی اکثریتی رائے کے خلاف بھارت کا ساتھ دیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پہلے دو قومی نظریے کا تمسخر اڑایا کرتے۔ اب سعید نقوی جیسے بھارتی دانشور اورمحبوبہ مفتی جیسی کشمیری سیاستدان تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کے بزرگوں نے دو قومی نظریہ کی مخالفت کر کے تاریخی غلطی کی۔ بھارتی آئین میں شامل شق 370عبوری انتظامی ڈھانچے سے متعلق تھی۔ اس شق میں مرکز اور ریاست جموں و کشمیر کے باہمی تعلقات کے خدوخال کا تعین کیا گیا تھا۔ یہ شق ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین کے اندر رہ کر خصوصی نیم خودمختار حیثیت دیتی تھی۔ یہ شق شیخ عبداللہ اور وزیر اعظم نہرو کے درمیان 5ماہ کی طویل مشاورت کے بعد آئین کا حصہ بنائی گئی۔ یہ شق بتاتی تھی کہ دفاع‘ مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ مرکزی حکومت یا مرکزی پارلیمان کشمیر میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر بھارتی قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی۔ شق 35اے کا معاملہ بھی قدیم ہے۔ اس کی رو سے جموں و کشمیر کی حدود میں کسی دوسرے علاقے کا شہری جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا‘ یہاں نوکری نہیں حاصل کر سکتا اور نہ ہی آزادانہ طور پر کشمیر میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ یہ قانون ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ نے 1927ء سے 1932ء کے درمیان تشکیل دئے تھے۔ بھارت نے 1954ء میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ان قوانین کو آئین کا حصہ بنایا۔بھارت نے اقوام متحدہ میں یہ تسلیم کر رکھا ہے کہ کشمیر ایک متنازع معاملہ ہے اور پاکستان‘ بھارت اور کشمیری اس کے فریق ہیں۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی دستخط شدہ الحاقی دستاویز سمیت کشمیر کے متعلق بھارت کا سابقہ سرکاری موقف ریکارڈ کی صورت اقوام متحدہ کے پاس ہے۔اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کئے گئے دفاعی مبصرین کواگرچہ بھارت نے اپنے مقبوضہ علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی مگر آزاد کشمیر میں موجود یہ مبصرین بھارتی اشتعال انگیزی اور فائر بندی معاہدہ کی خلاف ورزی کی رپورٹس اقوام متحدہ کو بھیجتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ایک برس کے دوران اقوام متحدہ کی جانب سے دو ایسی رپورٹس جاری ہو چکی ہیں جن میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کا ذکر کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کمشن کی جاری ان رپورٹس میں بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب قراردیا گیا ہے‘ چند ماہ قبل امریکہ نے ایک رپورٹ میںکہا کہ بھارت مذہبی امتیاز اور تشدد کو فروغ دینے والا ملک ہے۔ بھارتی حکومت نے بلا شبہ بین الاقوامی ضابطوں‘ بھارتی سپریم کورٹ کے حکم اور تاریخی حقائق کو نظر انداز کر کے ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کی ہے۔ کشمیری باشندوں کو خدشہ ہے کہ بھارتی اقدام کے بعد ان کی حیثیت اسرائیل کی جارحیت کے شکار فلسطینیوں جیسی ہو جائے گی۔ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں اور بعض حکومتی اتحاد کی جماعتوں نے آئین کی شق 370کے خاتمہ کی مخالفت کی ہے تاہم کشمیری باشندوں اور پاکستان کو اس مخالفت کی بجائے عالمی برادری کے ردعمل سے دلچسپی ہے۔ پاکستان نے ہر موقع پر اس تنازع کو پرامن طریقے اور بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کی لیکن بھارت نے کشمیر پر قبضے کے بعد ہر موقع کو وقت ضائع کرنے کا ذریعہ بنایا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان کے خلاف اپنے عوام کو بھڑکا کر سیاسی مقاصد پورا کرتے ہیں۔ فروری 2019ء میں پاکستان نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے دو بھارتی طیاروں کو گرا کر بتا دیا تھا کہ بھارت نے اگر امن کی بجائے جنگ کا میدان منتخب کیا تو پاکستان کو تیار اور مستعد پائے گا۔ پاکستان نے بھارتی اقدام پر سکیورٹی کونسل سے رجوع کا فیصلہ کر کے ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر خود کو ذمہ دار ریاست ثابت کیا ہے تاہم اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی بے حسی برقرار رہی تو جنوبی ایشیا ایک بھیانک جنگ کا شکار ہو سکتا ہے۔