میونخ کانفرنس کے دوران ایک سیشن میں امریکی سینیٹر لنزے گراہم نے بھارتی وزیر خارجہ سے کہا کہ کشمیر کی صورت حال کا انجام نجانے کیا ہو گا۔ بہتر یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں مل کر اس مسئلے کا حل نکالیں۔ اس پربھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر غصے میں آگئے اور سفارتی آداب فراموش کر بیٹھے۔ امریکی سینیٹر لنزے گراہم کا کشمیرکا ذکر چھیڑنا سبرا منیم جے شنکر سے برداشت نہ ہوا اور انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ فکر نہ کریں۔ مسئلہ کشمیر بھارت اکیلا ہی حل کر لے گا۔ امریکی سینیٹر لنزے گراہم ان 4 امریکی سینیٹرز میں سے ایک ہیں جنہوں نے امریکی وزیر خارجہ سے کہا ہے کہ وہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مودی کے متنازع شہریت قانون کے اثرات کی 30 دن کے اندر اندر تفتیش کریں۔صرف یہی نہیں بلکہ دوران کانفرنس بھارتی وزیرخارجہ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے دورہ پاکستان پر بھی تکلیف کا اظہار کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کا اعتبار کم ہو چکا ہے۔ پورپی یونین اور کئی ملکوں کے سفیروں کے حالیہ دورہ مقبوضہ کشمیر کے بعد یونین کی ترجمان برائے امور خارجہ اور سلامتی پالیسی ورجین باتوہینرکسن نے بھارتی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں نافذ پابندیوں کو فوری طور پر ہٹانا ناگزیر ہے۔ کشمیر میں ابھی بھی کئی پابندیاں عائد ہیں جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے مثلاً جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ پوری طرح بحال نہیں ہے اور سیاسی قیدی ابھی بھی نظر بند ہیں۔ ان سبھی معاملات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یورپی یونین کی جموںوکشمیر کی صورتحال پر گہری نظر ہے اور علاقے میں انٹرنیٹ کی فوری بحالی اور نظر بند رہنمائوں کی رہائی کیلئے بھارتی حکومت پر دبائو ڈالا جائے گا۔ اسی طرح بھارت ترک صدررجب طیب اردوان کی مقبوضہ کشمیر سے متعلق بیان سے بھی تلملا گیا تھا اور مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو ایک بار پھر بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا تھا۔ گزشتہ برس ستمبر سے بھارت اور ملائیشیا کے تعلقات اس وقت سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے جب ملائیشیا کے صدر مہاتیر محمد کا یہ بیان سامنے آیا کہ بھارت نے کشمیر پر ’حملہ اور قبضہ‘ کیا ہے۔پام آئل کے بھارتی تاجر اب ملائیشیا کے بجائے انڈونیشیا سے خریداری کر رہے ہیں۔جہاں تک انڈونیشیا کی بات ہے تو انڈونیشیا نے بھی بھار تی دارالحکومت نئی دلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی شدید مذمت کی اوربھارتی حکومت سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح کمبوڈیا کے پیس پیلس میں ہونے والی ایشیا پیسفک سمٹ کے دوران ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے مقبوضہ کشمیرمیں جاری بھارتی مظالم کا پردہ چاک کیا تو بھارتی رکن اسمبلی آپے سے باہر ہوگئے اور تمام ترسفارتی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بدمزگی پھیلانے کی کوشش کی لیکن بھارت کو ایک بار پھر عالمی سطح پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ سکیورٹی کاعملہ وہاں پہنچ گیا اور بھارتی مندوب کو پکڑ کر باہر لے گئے جس کے بعد قاسم سوری نے اپنا خطاب جراتمندی سے مکمل کیا۔ کمبوڈیا کے دارالحکومت پونم پن میں منعقدہ ایشیاپیسفک سمٹ دوہزار انیس میں مختلف ممالک کے دوسو سے زائد نمائندگا ن شریک تھے۔ بھارت کی یہ صورتحال اب کی نہیں بلکہ گزشتہ برس مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد شروع ہوئی۔ سب سے پہلے تو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اس کے حصے بخرے کرنے پر پاکستان کی درخواست پر 1965 ء کے بعد پہلی مرتبہ سلامتی کونسل کا اجلاس کشمیر کے متنازعہ علاقے پر ہوا۔سلامتی کونسل کے 15 اراکین نے بند کمرے کے اجلاس کے دوران کشمیر کے مسئلے پر بحث کی۔ 90 منٹ کے اجلاس کے بعد چین کے مستقل مندوب کا کہنا تھا کہ ’آج دنیا نے تسلیم کر لیا ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں‘۔ چین نے پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل کیا جانا چاہیے ۔ امریکہ، فرانس اور روس نے اجلاس کے دوران بھارت کوپاکستان کے ساتھ باہمی سطح پر معاملات حل کرنے کی تلقین کی۔یہاں بھارت کے مستقل مندوب سعید اکبرالدین نے کہا کہ بھارت کا کشمیر کے معاملے میں آرٹیکل 370 کے بارے میں لیا گیا قدم اندرونی معاملہ ہے۔لیکن دنیا نے یہ تسلیم کیا کہ اب کشمیر کا مسئلہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں۔یہاں بھی بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس سے پہلے پلوامہ واقعہ پر سلامتی کونسل کے اعلامیہ میں پاکستان کا نام شامل کرنے کی بھارتی کوشش بدترین ناکامی سے دوچار ہو ئی۔بھارت نے اپنے طے شدہ ایجنڈے کے تحت پلوامہ واقعہ پرصرف الزام تراشیوں کا سہارا نہیں لیا تھا بلکہ مختلف ممالک کو اس ضمن میں ہمنوا بنانے کے لیے باقاعدہ بریفنگ بھی دی تھی مگر ناکامی اس کا مقدر ٹھہری۔بھارت مسلسل اس بات کی کوشش کررہا تھا کہ پاکستان کا نام اعلامیہ میں شامل ہو جائے لیکن سلامتی کونسل نے صرف جیش محمد کا نام شامل کیاجو پہلے ہی پاکستان میں کالعدم تنظیم قرار دی جا چکی ہے۔ اس طرح بھارت عالمی فورم پر بدترین سفارتی ناکامی سے دوچار ہوا ۔ ترکی کے شہر اناطولیہ میں جاری ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستانی وفد کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنے پر بھارتی وفد اشتعال میں آگیا۔پاکستانی وفد میں شامل سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف کی تقریر میں بھارتی وفد نے مداخلت کی جس پر سینیٹر محمد علی سیف نے بھارتی وفد کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹرینز بنیں مودی نہ بنیں، جواب کیلئے اپنی باری کا انتظار کریں۔ مگر بھارتی وفد نے تقریر کے دوران شور شرابہ جاری رکھا۔ہمارے وفد نے پارلیمانی اسمبلی کو باور کرایا کہ مودی انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بھارتی وفد ایک دہشت گرد کا دفاع کر رہا ہے۔ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کا نوٹس لے۔ ٭٭٭٭٭