سری لنکا میں پیدا ہونے والا کاون صرف چار سال کا تھا جب اسے سری لنکا سے پاکستان لایا گیا،اس وقت پاکستان کے حکمران جنرل محمد ضیاء الحق نے سر ی لنکن حکومت سے درخواست کرکے کاون کو مانگا تھا ،تامل ٹائیگر کی بغاوت کچلنے میں مدد دینے پر سری لنکن حکومت پاکستان کی ممنون تھی جنرل ضیاء الحق سری لنکا میں محسن کے طور پر جانے جاتے تھے جنرل صاحب کی فرمائش پر سونڈ لہراتا جھومتا جھامتا کاون اسلام آبا دمیں مارگلہ کی سرسبز پہاڑیوں کے قریب بنائے گئے چڑیا گھر منتقل کر دیا گیا، اسلام آبا دکے شہر ی دور دور سے اسے ملنے آتے اسکے ساتھ تصاویر بناتے، کاون نے چڑیا گھر کی رونق توبڑھا دی تھی لیکن وہ خوداداس تھااور اسکی اداسی کا سبب اسکی تنہائی تھی ،ہاتھی سب کا ساتھی تھا لیکن یہاں اسکا کوئی ساتھی نہ تھا اسکی گول گول چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے اداسی جھلکنے لگی یہ اداسی چڑیا گھر والوں سے چھپی نہ تھی لیکن وہ کیا کرتے پاکستان کے طول و عرض میں کہیں بھی ہاتھی نہیں پائے جاتے تھے دن اسی طرح گزرتے رہے اور جانے کب تک گزرتے چلے جاتے کہ قدرت نے جیسے اسکی سن لی ،بنگلہ دیش کی وزیر اعظم خالدہ ضیاء نے 1991ء میں ایک شرارتی ہتھنی پاکستان کو تحفے میں دی جو اسلام آباد میں کاون کے پاس پہنچا دی گئی سہیلی نامی یہ ہتھنی کاون سے نو برس چھوٹی تھی جو خوشی خوشی کاون کی دوست بن گئی وہ بھی خوش ہو گیا کہ سہیلی کے دم سے اسکی تنہائی دور ہوگئی لیکن سہیلی کا یہ ساتھ 2012ء میں اس وقت چھوٹ گیا جب وہ نامناسب دیکھ بھال اور علاج میں غفلت کے باعث انتقال کر گئی ،کہتے ہیں سہیلی اور کاون کو پیروں میں زنجیریں ڈال کر رکھا گیا تھااورجب سہیلی کے جسم سے اسکی روح نے پرواز کی تب بھی کاون اور سہیلی کے پیروں میں زنجیر یں پڑی ہوئی تھیں ،اب پھر کاون تھا اور وہی تنہائی تھی ،کاون نے اپنے ساتھی کی موت کا گہرا صدمہ لیا،زنجیروں میں جکڑا کاون دائیں بائیں اپنا سرہلاتا یا پھر سامنے دیوار سے اپنا سر ٹکراتا رہتا ،یہ 2015ء کی بات ہے جب امریکہ سے آئی ہوئی ثمر خان گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اسلام آباد آئی اور ایک دن اپنی والدہ کے ساتھ اسلام آباد کے چھوٹے سے چڑیا گھر پہنچ گئی ،جانوروں کی ڈاکٹر بننے والی ثمر خان نے کاون کی بے چینی سے اسکی ذہنی حالت بھانپ لی وہ جان گئی کہ کاون کو تنہائی ڈس رہی ہے ،اوپر سے پیروں میں پڑی فولادی زنجیریں، اور ناکافی دیکھ بھال اسے پاگل کرنے والی ہے ،ثمر خان نے کاون کی تصاویربنائیں اور سوشل میڈیا پرڈال دیں ساتھ ہی ’’کاون کو آزاد کرو‘‘ کے نام سے مہم شروع کردی۔ اس نے دنیا بھر کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ کاون کی رہائی کے لئے آواز اٹھائیں۔ ثمر نے ایک آن لائین پٹیشن بھی ڈال دی۔ جس پر مہذب دنیا کے چار لاکھ رحم دل انسانوں نے دستخط کئے، ثمر کی یہ مہم عالمی سطح پر مقبول ہوتی چلی گئی۔ کاون کی دیوار سے سرلگائے ہوئے تصویر سوشل میڈیا پر پھیل گئی، جس نے بھی کاون کو دیکھا اس نے افسوس کا اظہار کیا اور کاون کی رہائی کے لئے آواز میں آواز ملانی شروع کردی ’’فری کاون موومنٹ ‘‘ اس وقت زور پکڑ گئی، جب امریکی گلوکارہ شر نے اس مہم میں حصہ لیا جانوروں اور پرندوں کے حقوق کا خیال رکھنے والی تنظیمیں بھی فری کاون مہم میں اپنا وزن ڈال چکی تھیں، عالمی سطح پر کاون کے لئے ماحول بن گیا،عالمی میڈیا نے کاون کو دنیا کا تنہا ہاتھی قرار دے کر یہ بڑی بڑی خبریں مضامین لگائے۔ اسلام آباد چڑیاگھر اور حکومت پاکستان پر مہذب دنیا کا دباؤ بڑھنے لگا اور بڑھتا چلا گیا، جانوروں کی حقوق کی تنظیموں کیلئے سب سے اہم موضوع ہی کاون بن گیا اور بلآخر نرم دل مہذب انسانوں کی جیت ہوئی کاون رہا کرکے تیس نومبر کو خصوصی پرواز کے ذریعے کمبوڈیا پہنچا دیا گیا،جہاںبدھ سادھوؤں نے کیلوں اور تربوزوں سے اسکی تواضع کی اور منتر پڑھ پڑھ کر اس پر پانی چھڑکا۔ کاون کی کہانی میں سب سے اہم عنصر مہذب دنیا کا شانداررسپانس ہے ،کس طرح یورپ امریکہ اور دیگر ممالک کے شہریوں نے اسکا دکھ سمجھا اور ہمدردی کا اظہار کرکے اسے قید تنہائی سے نکال کر آزاد فضاؤں تک پہنچاکر دم لیا، اب ذرا کاون کے ’’چڑیا گھرجیل‘‘ سے محض 167کلو میٹر کے فاصلے پر ان آدھی بیواؤں کے’’ جیل ‘‘کے بارے میں سوچئے جن کے سہاگ برسوں سے لاپتہ ہیں اور جنکی کوئی خبر نہیں ،مقبوضہ کشمیر میں جبری لاپتہ کئے گئے افراد کے والدین کی تنظیم APDPکی ویب سائٹ پربھارتی فوج کے ہاتھوں لاپتہ افراد کی تعداد آٹھ سے دس ہزار درج ہے ،ان میں کتنی وہ سہاگنیں ہیں، جنکے عمر بھر کا ساتھی گھر سے اٹھایا گیا اور پھر واپس نہیں آیا ،وہ نہیں جانتی کہ ان کا سہاگ کسی عقوبت خانے میں ہے یا جیل میں یا خاموشی سے کہیں گمنام قبر میں پہنچا دیا گیا ہے ،ان بدقسمت سہاگنوں کو وہاں آدھی بیوہ کہا جاتا ہے کہ انکے پاس نہ اپنے سہاگ کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے نہ موت کا۔ سرکار انہیں بیوہ مان کر ڈیتھ سرٹیفکٹ دینے سے انکار ی ہے یہ نصف بیوائیں کاون کی طرح روز جیتی اور روز مرتی ہیں، ان کی آنکھیں گھروں کے دروازوں پر جمی رہتی ہیں لیکن ان کا انتظار ختم نہیں ہوتا ۔ صدف بھی انہی بیواؤں میں سے ایک ہے صدف اور منظور کی لو میرج تھی دونوں بچپن میں ساتھ کھیلے کودے او ر جب ہوش سنبھالا تو دونوں ہی نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں اپنے لئے وارفتگی پائی وہ ان معنوں میں خوش قسمت ثابت ہوئے کہ زندگی کے سفر میں وہ ہمسفر ہو گئے، شادی کے بعد دونوں نئی دہلی آگئے جہاں ان کے آنگن میں تین پھول کھلے، زندگی اپنے ڈھب سے گزر رہی تھی کہ انہوںنے اک برے دن کشمیر واپسی کا فیصلہ کیا، واپسی کے کچھ ہی دن بعد منظور کو بھارتی فوج اٹھا کر لے گئی اورآج تک صدف کو کوئی خبر نہیں وہ اپنے شوہر کی تلاش میں بساط بھر کوششیں کرچکی ہے، اسے جہاں بھی ذرا امید دکھائی دیتی وہ اپنے بچوں کے ساتھ وہاں پہنچ جاتی لیکن اسکی آواز کمزور ہے کہ مہذب دنیا نے اسکی آواز میں آواز نہیں ملائی ،کسی امریکی یورپی شہری نے اسکی ویران آنکھوں کی تصویرسوشل میڈیا پر وائرل نہیں کی، اسکے لئے کسی نے پٹیشن دائر نہیںکی ،مقبوضہ وادی کا مقبوضہ میڈیا ان ’’نصف بیواؤں ‘‘ کی تعداد پندرہ سو سے دو ہزار بتاتا ہے ،میرے سامنے کبھی صدف کا اترا ہوا چہرہ اور ویرانی میں اگی ہوئی آنکھیں آتی ہیں اور کبھی کمبوڈیا میں خوشی سے سونڈ لہراتا کاون، مجھے کہنے دیں کہ آج انسان سے زیادہ حیوان خوش نصیب ہے!!