وفاقی کابینہ نے کورونا ویکسین کے حصول کے لیے 15 کروڑ ڈالر کی رقم مختص کرنے کی منظوری دی ہے۔ ملک میں کورونا کی دوسری لہر کے پیش نظر حکومت کا ویکسین حاصل کرنے کے لیے فیلہ قابل تحسین قرار دیا جاسکتا ہے تاہم ویکسین کی فراہمی کے لیے شہریوں کی درجہ بندی کا منصوبہ تفصیل کے ساتھ تاحال سامنے نہیں آ سکا۔ یکم دسمبر اس لحاظ سے اہم رہا کہ چار ماہ کے دوران یہ پہلا دن تھا جب کورونا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 67 ہو گئی۔ کورونا کی وبا غیر احتیاطی مزاج اور سیاسی اجتماعات کے باعث شدت پکڑ رہی ہے ۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے انسانی اجتماعات کو محدود سے محدود تر کرنے اور ایس او پیز کی پابندی کرانے کے عمل میں سختی شروع کر دی ہے۔ اسلام آباد کے ہوٹلوں کے اندر کھانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ پورے ملک میں شہریوں پر لازم ہے کہ وہ ماسک کا استعمال کریں اور ہاتھوں کو جراثیم کش محلول سے صاف رکھیں۔کسی بھی ویکسین کے محفوظ ہونے کے تجربات کو لیبارٹری کی سطح پر شروع کیا جاتا ہے اور اس کا تجربہ جانوروں یا انسانی خلیوں پر کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کو انسانی جسم میں لگایا جاتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ اس ویکسین کے تجربے کو چھوٹے پیمانے پر شروع کیا جائے اور اگلے مرحلے میں صرف اس وقت داخل ہوا جائے جب تک کہ اس کے انسانی صحت پر کوئی غیر معمولی اثرات ثابت نہ ہو جائیں اور اس بات کی تسلی کر لی جائے کہ یہ انسانی جسم کے لیے محفوظ ہے۔جب تک لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربات کے اعداد و شمار سے یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس کے نتائج مثبت اور حوصلہ افزا ہیں اور سائنسدان اس بات کی نشاندہی اور یقین نہ کر لیں کہ تیار کردہ ویکسین یا طریقہ علاج مؤثر ہے، اس کو اگلے مرحلے میں نہیں بھیجا جاتا۔انسانوں پر تجربے کے لیے بڑے پیمانے پر رضا کاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس عمل میں آدھے رضاکاروں کو تیارکردہ ویکسین لگائی جاتی ہے جبکہ آدھوں کو سادہ محلول لگایا جاتا ہے۔ اس عمل میں محققین اور تجربے میں شامل رضاکاروں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کو اصل ویکسین لگائی گئی ہے اور کس کو سادہ محلول، جب تک کہ ان کے لیبارٹری نتائج کا تجزیہ نہ کر لیا جائے۔ یہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس عمل کے دوران کسی قسم کی جانبداری نہ ہو۔ان تمام تجربات کے نتائج کو آزادانہ طور پر پرکھا اور جانچا جاتا ہے۔کورونا ویکیسن کے تجربات آغاز میںبہت عجلت اور تیزی سے کیے گئے لیکن اس عمل میں کسی بھی سطح پر کیے گئے تجربات کو چھوڑا نہیں گیا۔آکسفورڈ یونیورسٹی اور دوا ساز کمپنی آسٹرازنیکا کی ویکسین کے تجربات کو ایک موقع پر رضا کارانہ طور پر یہ جاننے کے لیے روک دیا گیا تھا ۔ رواں برس اگست میں پاکستان نے کوویڈ 19 کی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کی منظوری دی ۔چین کی دو کمپنیاں حکومت پاکستان کے اشتراک سے اس ویکسین کی تیاری پر کام کر رہی ہیں۔ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی نے اس ویکسین کی انسانی آزمائش کی اجازت دی اور نیشنل انسٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز، اسلام آباد اور کراچی یونیورسٹی میں قائم انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولاجیکل سائنس میں ان آزمائشی مرحلوں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔آغا خان یونیورسٹی ہسپتال، شوکت خانم اور انڈس ہسپتال بھی اس آزمائشی تجربے کا حصہ ہیں۔ کلینیکل ٹرائل سے پہلے اس ویکیسین کا لیبارٹری میں ٹرائل کیا گیا اور دوسرے مرحلے میں جانوروں پر آزمائش کی گئی۔ حکامکے مطابق اب تیسرے مرحلے میں اس کی انسانوں پر آزمائش ہوگی۔ پہلے چند لوگوں پر آزمائش ہوتی ہے جس کے بعد کچھ سو اور اس کے بعد ہزاروں پر تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس ویکسین کے نتائج کیا آ رہے ہیں اور آیا اس کا کوئی مضر اثر تو نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ویکیسن یا دوا ہو، اس کی آزمائش میں شامل رضاکاروں کو عام طور پر ہسپتال میں نہیں رکھا جاتا۔ وہ ہر دوسرے روز یا ہفتے میں ہسپتال آتے ہیں جہاں ان کے خون کے نمونے اور دیگر ٹیسٹ لیے جاتے ہیں جن میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ویکسین یا دوا کس حد تک موثر ہو رہی ہے۔ نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ویکیسین کا پاکستان میں یہ پہلا کلینیکل ٹرائل ہوگا ۔این آئی ایچ کا کہنا ہے کہ یہ کثیر الملکی اور ملٹی سینٹر ٹرائل ہے، کین سینو بائولوجکس اس سے قبل چین، روس اور سعودی عرب میں ایسے تجربے کر چکی ہے۔دنیا بھر میں بیماریوں کے خلاف استعمال ہونے والی ویکسینوں پر طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا کی جاتی رہی ہیں‘ پاکستان ایسی ہی پھیلائی غلط فہمیوں کے باعث ایک بار پھر پولیو کے مرض کا نشانہ بن رہا ہے۔ کورونا کی ویکسین امریکہ‘ برطانیہ اور چین نے تیار کی ہے۔ پاکستان نے ویکسین تیار کرنے والے تمام ممالک سے رابطہ کیا ہے۔ بعض کمپنیوں کی ویکسین تجرباتی بنیادوں پر رضا کاروں پر آزمائی جا چکی ہے۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں میڈیکل اور فارما سیوٹیکل انڈسٹری پسماندگی کا شکار ہے۔ اگر کسی دوسرے ملک سے ادویات‘ ٹیکنالوجی اور ویکسین خریدی جائے تو ان ممالک سے مسابقت رکھنے والے ممالک عالمی سطح پر بعض سرگرم گروہوں کی مدد سے بے جا پروپیگنڈہ شروع کردیتے ہیں‘ اس سے لوگوں کے دلوں میں ویکسین کے متعلق ایک خوف بیٹھ جاتا ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے کورونا ویکسین کی خریداری کی منظوری سے بلاشبہ شہریوں کو وبا سے محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی تاہم اچھا ہو گا کہ حکومت مقامی سطح پر میڈیکل اور فارما سیوٹیکل صنعت کو ترقی دینے پر توجہ دے تاکہ قومی وسائل کا بروقت اور بہتر استعمال ممکن ہو سکے۔ اس سلسلے میں تمام صوبوں کومنصوبہ بندی میں شریک کر کے اچھے نتائج لئے جا سکتے ہیں۔