پاکستان کی ابتر معاشی صورتحال کا ملبہ موجودہ حکومت کی بدانتظامی‘ناتجربہ کاری اور ناقص ٹیم پر ڈال بھی دیں تو اس سوال کا جواب ملنا مشکل ہے کہ آئی ایم ایف قرضہ کی شرائط میں روزبروز اضافہ کیوں کر رہا ہے‘ تازہ ترین شرط یہ ہے کہ عوامی جمہوری چین اور سعودی عرب تین سال تک اپنے قرض واپس نہ لینے کی یقین دہانی کرائیں جبکہ پاکستان بار بار کہہ چکا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ‘ دوست ممالک بالخصوص چین کو ادائیگی کے لئے استعمال نہیں کرے گا۔ دور کی کوڑی لانے والے آئی ایم ایف کی سخت شرائط‘ پاکستان میں ڈالر کی بلند پرواز ‘ معاشی ابتری اور اپوزیشن کی اچانک فعالیت کو امریکہ‘ ایران چپقلش کے تناظر میں دیکھتے اور عمران خان کے دورہ ایران کو اونٹ کی کمر پر آخری تنکا تصور کرتے ہیں۔ امام خمینی کے انقلاب کے بعد پاک ایران تعلقات میں وہ گرمجوشی نہیں رہی جو شاہ ایران کے دور کا خاصہ تھی۔ ایران کے انقلابی رہنماپاکستان میں ضیاء الحق کی فوجی حکومت کو امریکہ کی حاشیہ بردار سمجھتے اور عرب‘ عجم تاریخی کشمکش کے تناظر میں ہمیں عربوں کا حلیف قرار دیتے رہے۔ عراق‘ ایران جنگ میں پاکستان پر امریکہ کے علاوہ عرب دوستوں کا شدید دبائو تھا کہ وہ صدام حسین کا کھل کر ساتھ دے مگر جنرل ضیاء الحق پہلو بچاتے رہے اور بعد میں یہ اطلاعات منظر عام پر آئیں کہ ہم نے درپردہ ایران کی مدد کی۔ امریکہ اس وقت ایران کو افغانستان‘عراق اور لیبیا کی طرح سبق سکھانے کے درپے ہے۔ صدر ٹرمپ نے نیو کلیر معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ کر کے اقتصادی و معاشی پابندیاں بڑھا دیں۔ اپنے طیارہ بردار بحری بیڑے اور بی 52طیارے علاقے میں پہنچا دیے اور ایک ٹویٹ میں ایران کو ملیا میٹ کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے۔ عرب اور خلیجی ممالک اجلاس پر اجلاس کر رہے ہیں اور عالمی میڈیا تواتر سے یہ رپورٹیں شائع کررہا ہے کہ اہم عرب ممالک اسرائیل کو ایران پر چڑھ دوڑنے کی ترغیب دے رہے ہیں تاکہ ایران یمنی حوثیوں کی پشت پناہی نہ کر پائے۔ ایسی صورت حال میں پاکستانی وزیر اعظم کا دورہ ایران انکل سام نے کیسے ہضم کیا ہو گا؟ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض کا حصول پاکستان کی مجبوری ہے اور عالمی مالیاتی ادارہ اپنے چارٹر کے مطابق پاکستان کو بیل آئوٹ پیکیج دینے کا پابند۔ پیکیج کے ساتھ قرضوں کی واپسی اور معیشت کی بحالی کے لئے تجاویز نما شرائط آئی ایم ایف کا پرانا طریقہ کار ہے مگر چینی قرضوں اور امداد کی تفصیلات طلب کرنا اور دو دوست ممالک کی طرف سے یقین دہانی کی فرمائش انوکھی بات ہے‘ عالمی ایجنڈے کا حصہ اور ایک خود مختار ریاست کے اقتدار اعلیٰ سے مذاق۔ عین اس وقت جبکہ پاکستان معاشی دبائو کا شکار ہے اپوزیشن جماعتوں میں وسیع تر اتحاد اور عیدالفطر کے بعد احتجاجی تحریک پر اتفاق کو اسی تناظر میں دیکھنے پر مُصر حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں کمزور‘ کرپٹ اور بیرونی طاقتوں پر انحصار کرنے والے عناصر کی حکمرانی امریکہ اور مغرب کو ہمیشہ پسند رہی ہے تاکہ خطے کی اہم نیو کلیر اسلامی ریاست اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے نہ آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرے اور نہ اقتصادی و معاشی خود کفالت و خود انحصاری کے راستے پر چلے۔ عمران خان نے الیکشن سے پہلے اور انتخابات جیتنے کے بعد قوم کو معاشی ٹائیگر بنانے اور اقوام عالم کی صف میں باوقار مقام دلانے کے لئے جو بلند بانگ دعوے کئے وہ اس کے پائوں کی زنجیر بن چکے ہیں‘ امریکہ و مغرب پر کلی انحصار کے عادی طبقات کو یہ صورتحال قبول ہے نہ اقتدار و سیاست کے کھیل میں شریک بیرونی طاقتیں اس پر راضی اور نہ بحیثیت مجموعی قوم تیار۔ ترکی میں ڈالر کا بحران آیا تو قوم نے حکومت کا ساتھ دیا اورامریکہ و ڈالر کی ایک نہ چلنے دی‘ صدر ٹرمپ نے چینی کمپنی ہواوے پر پابندی لگائی تو چینی عوام نے آئی فون سے بدلہ چکایا۔یہاں ہر اس شخص نے ڈالر کے بحران کو تقویت پہنچائی جو ڈالر کی خریداری اورذخیرہ اندوزی کا اہل تھا۔ ہمارے قومی کردار کی پستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کیکڑا ون میں گیس اور تیل کے ذخائر نہ ملنے کی اطلاع منظر پر آئی تو عمران خان کے مخالفین ہی نہیں‘ عام شہریوں نے بھی حکومت کا مذاق اڑایا اور بعض نے بھنگڑے ڈالے ‘ ڈالر کے بحران پر بھی پریشانی کم ہے اور حکمرانوں کی مذمت زیادہ‘ حالانکہ نقصان قوم کا ہے۔92نیوز نے ڈالر بائیکاٹ کی مہم شروع کر رکھی ہے اہم شخصیات اور طبقات کی طرف سے مہم کو پذیرائی مل رہی ہے مگر جب تک حکومت اور مختلف مافیاز کا سر کچلنے کے اہل ادارے اس مہم کی اونر شپ نہیں لیتے اور قوم بحیثیت مجموعی ترک عوام کی طرح ڈالر کا بائیکاٹ نہیں کرتی‘ حوصلہ افزا نتائج حاصل نہیں ہو سکتے‘ عوام حکمرانوں سے قربانی کا مطالبہ کرتے ہیں اور حکمران عوام سے ایثار کے متقاضی۔آمادہ کوئی بھی نہیں اگر امریکہ بہادر عمران خاں کے دورہ ایران سے واقعی رنجیدہ ہے اور ہماری اسٹیبلشمنٹ نے حالیہ برسوں میں ملک کو امریکی شکنجے سے نکال کر روس‘ چین اتحاد کے قریب لے جانے کی جو سعی و تدبیر کی وہ ٹرمپ انتظامیہ کو پسند نہیں تو پھر عسکری اداروں کو دیوار سے لگانے کی خواہش منداپوزیشن تحریک کی کامیابی کا خواب دیکھ سکتی ہے لیکن کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور جعلی اکائونٹس کے الزامات نے دونوں بڑی جماعتوں کی ساکھ مجروح کی ہے۔ ایف اے ٹی ایف(F A T F) نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال کر عمران خان کے اس بیانئے کو مضبوط کیا ہے کہ اس کا ذمہ دار شریف خاندان اور زرداری خاندان ہے جن کی کرپشن جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے خلاف نیب سرگرم عمل ہے اور یہ راستہ روک کر ہی ہم گرے لسٹ سے نکل سکتے ہیں۔ عوام حکومت کے اس بیانئے سے بھلے سوفیصد متفق نہ ہوں ‘یہ ضرور جانتے ہیں کہ الزامات کافی حد تک درست ہیں۔ دونوں خاندانوں اور ان کے حواریوں کے بیرون ملک اثاثے قومی دولت لوٹ کر اور ناجائز ذرائع سے بیرون ملک منتقل کرکے بنے اور وہ اپوزیشن پر اس وقت تک اعتماد نہیں کر سکتے جب تک دونوں خاندان اپنے اثاثے اندرون ملک واپس لا کر قومی معیشت کو سنبھالا دینے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتے۔ سوچئے اگر شریف خاندان‘ زرداری خاندان اور ان کے حاشیہ نشین اور کاروباری حصہ دار بیرون ملک موجوداربوں ڈالر کی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں تو موجودہ بحران سے نمٹنے میں کتنی دیر لگے؟الزامات اور مقدمات نے اپوزیشن قیادت کی ساکھ عالمی سطح پر بھی مجروح کی ہے ۔عمران خان سے ناراض قوتیں حکومت کو دبائو میں لانے کے لئے اپوزیشن کی حوصلہ افزائی تو کر سکتی ہیں‘ شریف خاندان اور زرداری خاندان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کا رسک نہیں لیں گی کہ آزمودہ را آزمودن جہل است(آزمائے ہوئوں کو آزمانا جہالت اور نادانی ہے) ایران اور اس کے یورپی خیر خواہوں کی خواہش یہی ہے کہ امریکہ کے ساتھ معاملات نو ریٹرن پوائنٹ تک نہ پہنچیں۔ چین اور روس بھی خطے میں ایک نئی جنگ کے موڈ میں نہیں کہ ایران عراق ہے نہ لیبیا کہ اردگرد کے ممالک بالخصوص نیو کلیر روس ‘ چین اور پاکستان متاثر ہوں نہ ایرانی موقف سے ہمدردی رکھنے والے عوام مشتعل‘جن کی عقیدت کا مرکز مشہد مقدس ‘ قم اور دیگر مقامات ہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ حالات بگڑے اور نوبت جنگ تک پہنچی تو پھر عمران خان کی حکومت ہو نہ ہو دفاعی اور خارجہ امور پر بہتر دسترس رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ مزید مضبوط ہو گی اور امریکہ کے کھونٹے پر ناچنے والے عناصر کے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ تحریک انصاف میں جن عناصر کا خیال ہے کہ وہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر امریکی کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں انہیں بھی شاید ماضی کی طرح موجودہ سواد سے محروم ہونا پڑے کہ حالات سازگار ہیں نہ سہارے پائیدار اور نہ فی الحال عوام تیار۔ ؎ کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں ‘کہا تم اونٹ پر بیٹھو کہا کوہان کا ڈرہے‘ کہا کوہان تو ہو گا