پشتو زبان کا محاورہ ہے ’’جلد باز کو دو دفعہ پیشاب کرنا پڑتا ہے‘‘ ہمارے جلد بازوں کا ویسے ہی خطا ہو گیا، وہ سوتے ہوئے نیند ہی نیند میں‘ ہمارے بہت ہی عزیز دوست جو کالم نویس ہیں، تجزیہ کار اور فن تقریر میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں‘ شہباز حکومت کے اولین دنوں میں ٹیلی ویژن کی میزبان نے سوال کیا‘ حکومت سے نکلنے کے بعد عمران خاں کی مقبولیت آسمان کو چھو رہی ہے تو شہباز شریف ان کا مقابلہ کس طرح کر سکیں گے؟ چمک کر بولے‘ انتظار کرو‘ دیکھتے جائو‘ مقبولیت کو شہباز شریف کی کارکردگی سے مقابلہ درپیش ہو گا‘ تو مقبولیت اپنی چوکڑی بھول جائے گی، آپ جانتی ہیں کہ شہباز شریف کی کارکردگی کی ایک دنیا قائل ہے‘ پنجاب نے خود مشاہدہ کیا اب پورا پاکستان دیکھے گا‘ تجربہ کرے گا‘ ادھر ہمارے ترجمان سے بھی صبر نہ ہو سکا‘ حسن اتفاق 9اپریل کی رات عمران خاں کی حکومت گرائی گئی تو رات کی رات ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ایک روپے کا اضافہ ہوا اور سٹاک ایکسچینج بھی سنبھلی نظر آئی‘ تو محبوب عالم ترجمان کی وہی حالت تھی جو کشش ثقل کا راز پا لینے والے سائنس دان کی تھی‘ جو کپڑے پہننا بھول کر ننگا ہی گھر سے نکل آیا اور گلیوں میں چلاتا رہا کہ’’پا لیا‘ پالیا‘‘ شکر ہے کہ پاکستانی معیشت کی خوشخبری کے وقت وہ پورے لباس میں تھے اور اسی طرح میڈیا کے سامنے آئے‘ بس وہ دن اور آج کا دن‘ ترجمان ہوں یا تجزیہ کار‘ کارکردگی ان کا پیچھا کرتی ہے اور وہ منہ چھپائے نہ جانے کہاں ہیں؟ انہیں کہیے‘ باہر آئیں اپنے لطیفوں سے عوام کا دل بہلائیں‘ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ عمران خاں کی اچھی بھلی حکومت‘ غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقے سے ختم کی گئی یہ سب ایک غیر ملکی سازش کی وجہ سے ہوا‘ پاکستان میں اس سازش پر عملدرآمد کرنے والے سہولت کاروں نے ریاستی اداروں کا خوب استعمال کیا‘ استعمال ہونے والے‘ سہولت کاروں کی چال اور سازش کے جال کو اس وقت دیکھ نہیں سکے تھے‘ جب صورت حال واضح ہوئی تو وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا‘ کھیل اور کھیل کا میدان اسی کے ہاتھ رہا، جس سے جان چھڑوانے کے لئے سوجتن کئے تھے‘ لوگ کہتے ہیں عمران خاں نے نوجوانوں پر جادو کر دیا ہے، وہ اس کے سوا کسی کی سننے کو تیار نہیں ہیں‘ لیکن یہ عمران خاں نہیں ہے‘ جس نے قوم کو سازش اور سازشیوں کے خلاف سوتے سے جگا کر سڑکوں پر لاکھڑا کیا ہے‘ بلکہ اب کے قوم ہے جو ازخود گھروں سے نکلی سڑکوں پر آئی‘ اتنی تعداد میں آئی اس آن بان سے آئی کہ عمران خاں نے خود بھی اس کا کبھی خواب دیکھا نہ تصور کیا‘ یہ لیڈر نہیں ہے جو قوم کو لے کر میدان میں اترا بلکہ یہ قوم ہے‘ جو خود بخود باہر نکلی اور انہوں نے ایک شخص کو اپنا قائد مان کر کندھوں پر اٹھا لیا‘ قوم نے اس دفعہ کوئی غلطی نہیں کی‘ ان کی نظر انتخاب اس شخص پر پڑی جس کا ماضی ان کے سامنے تھا‘ اسے اچھی بری حالت اور دنوں میں دیکھ چکی تھی آزما چکی تھی اس نے کبھی قوم کو دھوکہ دیا نہ چھوڑ کے بھاگا‘ اس نے کبھی شکست تسلیم نہ کی نہ ہی کسی کام کو مشکل سمجھ کر راہ میں چھوڑا‘ اس نے جس کا قصد کیا‘ اسے حاصل کر کے رہا‘ اس نے ذاتی وجاہت کے مقابلے میں قوم کے عزوشرف اور عزت و وقار کو ترجیح دی۔ 9اپریل کی رات پراسرار شخص کی آواز پر سب ادارے ایک شخص کے خلاف اکٹھے ہو کر صف آرا ہوئے، نقاب پوش نے آج تک نقاب اتارا نہ بہادروں کی طرح سامنے آ کر للکارا‘ لیکن نقاب سرک رہی ہے اور چہرے بے نقاب ہونے کو ہیں۔9اپریل کی رات بارہ بجے وزیر اعظم عمران خاں وزیر اعظم نہیں رہے تھے وہ اپنا کل اثاثہ ایک ڈائری اٹھا کر باہر نکلے‘ انہوں نے پیچھے مڑ کر وہاں پر موجود صحافیوں کی طرف دیکھا اور کہا کوئی رہ تو نہیں گیا؟ جس نے میرے خلاف سازش میں شرکت نہ کی ہو؟ خیال رہے کہ یہ رمضان المبارک کے دن تھے اور عبادت اور نماز تراویح کی راتیں‘ ان دنوں تمام سیاسی غیر سیاسی سرگرمیاں ختم ہو جاتی ہیں‘ لوگ اپنا وقت عبادت و ریاضت میں گزارتے اور دنیاوی دھندے سے اجتناب کرتے ہیں‘ عمران خاں کہتے ہیں‘ میں وزارت عظمیٰ کے دفتر سے گھر آیا اور اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی سے کہا‘ تھوڑا وقت گھر کے اندر فراغت میں گزاریں گے‘ آرام کریں گے اور آئندہ کے لئے کوئی لائحہ عمل مرتب کریں گے‘ بچ جانے والی باقی رات سو کر گزاری‘ کافی دن چڑھے بیدار ہوئے ورزش اور تھوڑی چہل قدمی کے بعد میں(عمران خاں) فلم دیکھ رہا تھا‘ دفتر سے نکلے ہوئے بیس‘ بائیس گھنٹے گزر چکے تھے‘ لوگ نماز تراویح کے بعد مساجد سے نکلے وہ اپنے گھروں میں جانے کی بجائے اپنے اپنے شہر‘ قصبے کے معروف مقامات پر جمع ہونے لگے‘ بچے اور عورتیں بھی گروہ درگروہ نکل کھڑے ہوئے‘ بشریٰ بی بی کے فون پر مناظر ابھرنے لگے‘ اس نے مجھے دکھایا‘ یااللہ یہ کیا ہے؟ کیا معجزہ ہوا؟ آپ کے دستِ شفقت نے میری قوم ہی نہیں دنیا بھر کے ہر بڑے شہر کے لوگوں کے دل پھیر دیے‘ ایک شخص کے لئے الفت پیدا کر دی‘ اس پر اعتماد کرنے اور اس کا اعتماد جیتنے کے لئے لوگ جوق درجوق چلے آئے‘ انہیں عمران خاں نے باہر آنے کے لئے مجبور نہیں کیا تھا‘ لیکن ان کی محبت‘ والہانہ جوش و خروش نے عمران خاں کو کمر کسنے‘ میدان میں اترنے کے لئے تیار کیا‘ عوام نے خود اپنے رہنما کا انتخاب کیا‘ انہوں نے وفا کرنے اور وعدہ نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ تاریخ انسانی نے بے شمار انقلاب دیکھے ہیں‘ کتنے ہی لیڈروں کو مقبولیت کے عروج نفرت و حقارت کا شکار ہوتے دیکھا لیکن یہ تاریخ انسانی کا پہلا واقعہ ہے اور شاید آخری بھی ہو کہ پاکستان بھر میں 10اپریل کو تین کروڑ لوگوں نے گھروں سے نکل کر معزول وزیر اعظم کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور دنیا بھر میں اس کے لئے جلوس نکالے گئے‘ ان ملکوں میں بھی لوگ عمران کے لئے گھروں سے نکلے جہاں سیاسی سرگرمی اور جلسے جلوس کا کوئی رواج ہے نہ اجازت‘ یورپ‘ ایشیا‘ افریقہ ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ سعودی عرب‘ یونائیٹڈ عرب امارات‘ وہ دن اور آج کا دن اس کی مقبولیت اور پیش قدمی میں کوئی فرق نہیں آیا۔نیوٹرل‘ ایک وائی زیڈ‘ الیکشن کمیشن‘ پولیس‘ انتظامیہ ‘ دھاندلی‘ سینہ زوری‘ اخبارات ایک سو سے زیادہ ٹی وی چینل‘ تجزیہ‘ فریب‘ مضامین‘ سوشل میڈیا‘20صوبائی اسمبلی کے الیکشن جعلی ووٹوں کے باوجود 80 فیصد حلقوں میں عمران خاں نے میدان مار لیا۔ہر کوئی حواس باختہ ہے‘ بدحواس شہباز شریف اور ہمنوا پی ڈی ایم جو ہے سو ہے مگر بقول سید عباس اطہر ’’تیرا کی بنے گا کالیا‘‘ سب مل جائیں‘ سر جوڑیں ایک نہ ایک دن الیکشن میں جانا ہے‘بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘ مہینہ‘ دو مہینے‘ زیادہ سے زیادہ اختتام مدت تک؟ اس میں بھی دن کتنے ہیں؟ چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ۔ پاکستان میں حکمرانوں کے خلاف جب جب تحریک چلی‘ حکومت تو ختم ہو گی لیکن تحریک کا انجام بخیر نہیں ہوا‘ کوئی تحریک اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکی‘ مارشل لاء نے سیاسی تحریکوں کو اپنے ہدف تک پہنچنے نہیں دیا مگر شاید ان تحریکوں کے سامنے کوئی ہدف تھا بھی نہیں‘ وہ حکومتوں کے خاتمے کے چلائی گئیں‘ ان کے اپنے اندر اتنے تضادات اور اختلافات تھے کہ کسی ایک قیادت پر ان کا اتفاق بھی نہیں تھا‘ ملک کے اندر اور باہر کے خفیہ ہاتھ بھی انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے‘ تحریکوں کی قیادت چوں چوں کا مربہ تھی اور حکومت میں ایک شخصیت واضح اور سامنے جس کے خلاف وہ اکٹھے ہوئے‘اس کے بعد کون؟ پر ان کا اتفاق نہ تھا‘ لیکن آج برپا ہونے والی تحریک اپنا واضح ہدف رکھتی ہے اور ہدف ہے صرف انتخابات‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ‘ حکومت چوں چوں کا مربہ ہے‘ کمزور ‘ بے سمت‘ بے نام و نشان‘ کوئی نہیں جانتا فیصلہ ساز کون ہے؟ ان کے فیصلے کون کرتا ہے؟ کرتا بھی ہے یا نہیں؟ اختلاف ہی اختلاف‘ آپس کے سیاسی اور مفاداتی بھی۔تحریک انصاف ایک جماعت‘ ایک قیادت صاف اور واضح‘ ہر کوئی جان سکتا ہے سمجھ سکتا ہے کہ وہ کون ہے کس کے ساتھ بات کرنی ہے‘ کس کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو گا‘ دوسری طرف غیر جانبدار لوگ ان کا نشان پتہ واضح ہونے کے باوجود وہ ایک گنجلک پہیلی کی طرح ہے‘ جانتے سب ہیں نام نامعلوم وزیر کہنے کو شہباز شریف ہیں‘ لیکن حکومتی اتحاد میں ان کی کون سنے گا‘ خود اپنی پارٹی کے اندر بھی کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں‘ اول تو ممبران اسمبلی ان کی نہیں سنتے‘ پھر ان کی نائب صدر ان پر بھاری ہے‘ملک سے بھاگ کر لندن میں پناہ لینے والے مجرم جو سوئے اتفاق ان کے بڑے بھائی بھی ہیں پارٹی پر ان کا دعوئے ملکیت ہے‘ مریم نواز متوقع جانشین‘ شہباز شریف‘ اس بے نامی کے’’فرنٹ مین‘‘ نے ہاتھ باگ پر نے پا ہیں رکاب میں میں جانتا ہوں انجام اس کا ‘ جس معرکے کا ملا ہو غازی۔