ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ وزیر اعظم عمران خاں چند منٹ کے بعد قوم سے خطاب کیا اور ایسا وہ اکثر کرتے رہیں گے۔ خود بھی روز کرونا پر بریفنگ لیا کریں گے تاکہ باخبر رہ کر درست فیصلے کر سکیں۔ حکومت پنجاب نے فوج طلب کر لی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لاک ڈائون ہو سکتا ہے۔ وقت اتنی تیزی سے گزر رہا ہے کہ شہباز شریف بھی وطن واپس آ چکے ہیں حالانکہ بڑے بڑے ماہرین اس کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ سیاست پیچھے رہ گئی ہے۔ آسمانوں سے ایسی آفت نازل ہوئی ہے کہ دنیا کے ممالک میں امیر غریب کا فرق مٹ گیا ہے۔ مجھے اس وقت اس فیصلے کے سیاسی پہلوئوں کے بجائے ایک خالص تکنیکی مسئلے پر بات کرنا ہے۔ اس وقت بھی میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھاوہی اینکر‘ وہی تجزیہ کار‘ ماہر بنے بیٹھے تھے کہ اچانک ایک ممتاز ڈاکٹر کو زحمت دی گئی۔ ان ڈاکٹر صاحب کا نام چار پانچ ماہ پہلے ایک اور تناظر میں منظر پر آیا تھا۔ لگتا تھا کہ پورے ملک کو ان کی مہارت کا اندازہ تھا۔ جب نواز شریف شدید بیمار تھے تو انہیں خون کے امراض کے ماہر کے طور پر کراچی سے بلوایا گیا۔ معلوم ہوا کہ خون کی بیماریوں کے سلسلے میں ڈاکٹر طاہر شمسی کا غیر معمولی نام ہے۔ ایسے لگتا تھا کہ ان کی رائے کے سامنے سب نے سر تسلیم خم کر لیا تھا۔ ان کی دین داری اور خدا ترسی کا بھی چرچا ہوا تو دل ان کی طرف اور مائل ہوا۔ وہ کرونا کا ایک ممکنہ علاج بتا رہے تھے۔ اس وقت مرے دائیں بائیں دو سائنسدان موجود تھے۔ ایک مری اہلیہ جو وائرولوجی کی ماہر ہیں۔ دوسرے ایک دوسرے سائنسدان جنہوں نے ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ وہ پر امریکہ بھی رہے ہیں اور چین میں بھی کام کر کے آئے ہیں۔ وہ مجھے ایک دن پہلے ہی بتا رہے تھے کہ چین میں وائرس کے تین بڑے مراکز تھے جن میں ایک ووہان گنا جاتا ہے۔ وہ آج کل لاہور آئے ہوئے تھے۔ مجھے بتاتے رہے کہ چین میں اس پر کیا کام ہوا ہے۔ وہاں سائنس کس قدر ترقی کر چکی ہے۔ اب جب ڈاکٹر شمسی نے بات کی تو مجھے اس گفتگو سے ڈانڈے ملتے دکھائی دیے۔ جو ہم دو دن سے کر رہے تھے۔ بس بحث چھڑ گئی۔ جب ویکسین بنانے کا طریقہ ایجاد نہ ہوا تھا اور انسان اس طریقہ کار سے واقف نہ تھا کہ پولیو‘ ریبیز(کتے کاٹنے کی بیماری) اور خسرہ وغیرہ کا علاج کیسے ہوتا ہے۔ اس وقت نوع انسانی کے پاس طبی طریق کار کیا تھا۔1890ء سے پہلے کیسے علاج کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر شمسی نے بتایا اس وقت انفعال مدافعت (passive resistance)کا طریقہ اختیار کیا جاتا۔ اس میں ایک طریقہ وہ ہے جو ٹرمپ کے منہ سے نکل گیا اور انہوں نے کہہ دیاایف ڈی اے(FDA) نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ ایف ڈی اے نے اس کی تردید کر دی تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ ہی کی ممتاز یونیورسٹی جان ہاپکن نے یہ تجویز حکومت کو پیش کی ہے کہ دو علاقوں میں اس کا تجربہ کیا جائے ان میں ایک ملیریا کی دوا ہے‘ دوسری گنٹھیا کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ ملیریا کی دوا تو دنیا نے اب بنانا ہی بند کر دی ہے‘ شاید ضرورت نہیں رہی‘ مگر پاکستان میں بنتی ہے‘ اس کا خام مال بھارت میں تیار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے غالباً اس دوا کا آرڈر بھی پاکستان کی ایک کمپنی کو دیا ہے۔ مطلب یہ کہ یہ بات بالکل بے معنی نہیں ہے۔ سائنس میں اس کی گنجائش ہے۔ طاہر شمسی نے ایک دوسرا طریہ بتایا اور وہ یہ اس مریض کے خون کا پلازما لے کر اس مریض کو لگائیں جو خطرناک حد تک بیمار ہو۔ یہ بات انہوں نے مختصر طور پر کہی‘ اس لئے مرے ساتھ بیٹھے دونوں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پلازما براہ راست نہیں لگایا جاتا‘ بلکہ اس میں سے گلوبلن نکال کر استعمال ہوتا ہے جس میں اینٹی باڈیز ہوتی ہیں۔ میرا خیال ہے شاید طاہر شمسی نے دو ہفتے کا وقت مانگا ہے۔ اس لئے کہ پلازما اکٹھے کرنا‘ پھر اسے مریض میں استعمال کے لئے الگ الگ کرنا اور خون کے گروپ کے مطابق تیار کرنا کچھ وقت مانگتا ہے۔ ہمارے اس نوجوان سائنسدان نے کمپیوٹر سے نکال کر وہ تحقیقی پیپرز دکھائے جو چین کے تجربے پر چھپ بھی چکے ہیں۔ لگتا ہے چین نے یہ قدیم طریق کار استعمال کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اٹلی میں شرح اموات 10فیصد ہیں جبکہ چین میں 2.7فیصد ہیں۔ خیال رہے ہمارے سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد ملک کے اندر موجود ہے۔ انہیں برسرکار لانا چاہیے۔ اس وقت نسٹ (Nust)نے ایسی کٹ تیار کر لی ہے جو کرونا کا ٹسٹ بہت سستا کرتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں بھی کچھ کام ہو رہا ہے۔ یہ ایک لمبی لڑائی ہے جس کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ وائرس مختلف شکلوں میں آتا رہا ہے۔ پہلی بار پہلی جنگ عظیم کے بعد 1918ء میں فلو کا وائرس آیا جس میں اتنے لوگ مرے تھے جتنے جنگ عظیم میں بھی نہیں مرے۔ ان میں زیادہ تر نوجوان تھے۔ اوسطاً ان کی عمر 34سال تھی۔ آج کا وائرس ضعیف لوگوں پر اثر کر رہا ہے۔ اس کو ہسپانوی فلو کہتے تھے۔ پھر دوبارہ ایک اور طرح کا فلو1957ء اور 1968ء میں آیا۔ ان میں ایک ہانگ کانگ فلوکہلایا۔ اب اگر امریکی صدر ٹرمپ چینی وائرس کی پھبتی کستے ہیں‘ تو انہیں جان لینا چاہیے کہ یہ وبا کہیں سے بھی آ سکتی ہے۔ چند برس پہلے برڈ فلو کا چرچا ہوا تھا۔ اس میں عجیب بات یہ تھی کہ وائرس مرغیوں سے پہلے جانوروں میں اور جانوروں سے انسانوں میں آ رہا تھا۔ پرندوں کا وائرس عام طور پر جانوروں میں نہیں آتا۔ یعنی دودھ دینے والے جانداروں اور پرندوں کے معاملات الگ الگ ہیں۔ مگر جب یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اپنی شکل بدل کر جانوروں میں آ سکتا ہے تو خطرہ پیدا ہوا کہ ایسی صورت میں یہ ایک عالمی وبا کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ یہ بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ ایک بار بحث چھڑی کہ جن کا مطلب چھپی ہوئی چیز ہے۔ کہیں یہ بیکٹیریا اور وائرس تو کوئی ایسی چھپی ہوئی چیز نہیں ہے۔ مری اس بحث سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس سے مذہبی گمراہی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ تاہم یہ جان لینا چاہیے کہ حضور نبی کریمؐ کا یہ حکم بجا ہے کہ اللہ نے کوئی بیماری ایسی پیدا نہیں کی جس کا کوئی علاج نہ ہو۔ اس سلسلے میں ہمیں سیاسی بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے اور سائنسدانوں کو بھی اس میدان میں اتارنا چاہیے۔ اس وقت میں عمران کی تقریر بھی سن چکا ہوں جو کہتے ہیں‘ وہ لاک ڈائون نہیں کریں گے۔ دوسری طرف مراد علی شاہ کا اعلان آیا کہ وہ سندھ میں لاک ڈائون کررہے ہیں۔ خدا پاکستان کی حالت پر رحم فرمائے اور دنیا کو بھی اس وبا سے بچائے۔ انسان کیسے بے بس ہو جاتا ہے۔