لگ بھگ دس برس کے بعد لائن آف کنٹرول پر جاری تجارت کو بھی بھارت کی وزارت داخلہ نے بند کردیا۔ تجارت کی معطلی سے کروڑوں روپے مالیت کا سازوسامان لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کھڑے ٹرکوں میں لدا ہوا تباہ ہوگیا۔پہلے سے مالی مشکلات سے دوچار تاجروں کو زبردست معاشی دھچکا لگا۔بھارتی حکومت کے اس فیصلے پر نہ صرف جموں وکشمیر کے دونوں حصوں بلکہ پاکستان اور خود بھارت میں بھی زبردست ناپسندیدگی کا اظہارکیاگیا۔حریت کانفرنس کے میرواعظ عمر فاروق سے لے کر راجہ فاروق حیدر اور پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجما ن ڈاکٹر فیصل تک سب نے اس فیصلے کی مذمت کی۔ سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس فیصلے کو واجپائی کی طرف سے شروع کردہ اعتماد سازی کے اقدامات کو دفن کرنے کے مترادف قراردیا۔ بھارت کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ اس تجارت کو عسکریت پسند تنظیموں کے لئے فنڈز منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ تجارت کے ذریعہ ، منشیات اور جعلی کرنسی مقبوضہ کشمیر بھیجی جاتی ہے۔علاوہ ازیں زیادہ تر ان اشیاء کی تجارت کی جاتی ہے جو آزاد جموں وکشمیر یا مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوتی ہیں یا تیار۔ ان الزامات کی مشترکہ طور پرجانچ کرنے کے بجائے بھارتی حکومت نے یکطرفہ طور پر تجارت معطل کرکے پہلے سے جاری کشیدگی میں اضافہ کردیا۔ ایسے ہی الزامات آٹاری واہگہ تجارت کے بارے میں بھی دہرائے جاتے ہیں ۔ اسے روکا نہیںبلکہ مسائل کا حل تلاش کیاجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تجارت سے کنٹرول لائن کے گردونواح میں بسنے والی آبادی کی زندگی میں بہت سدھار آیا۔گزشتہ28 برسوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان یہ علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔تصادم میں نہ صرف ان کی معمول کی زندگی تباہ ہوئی بلکہ تعلیم ، صحت اور روزگار کے مواقع بھی چھن گئے۔ اکتوبر 2008 ء میں تجارت کے آغاز کے محض ایک ماہ بعد ممبئی حملوں کے نتیجے میںپاک بھارت کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچی۔ توقع تھی کہ کنٹرول لائن پر جاری تجارت بھی ٹھپ ہوجائے گی لیکن دونوں ممالک نے اس کھڑکی کو کھلا رکھا تاکہ کشمیرپر کئے گئے اعتماد سازی کے اقدامات برقرار رہیں۔ بعد میں بھی بہت مشکل مراحل آئے لیکن تجارت چلتی رہی۔ حیرت کی اس وقت کوئی انتہانہ رہی جب پلوامہ حملے کے بعد بھی سامان سے لدے ٹرکوں نے کنٹرول لائن عبور کی۔ یہ خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا تھا۔ فی الحال مظفر آباد اور پونچھ راولاکوٹ کے ذریعے چار دن صفر ڈیوٹی تجارت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود تجارت میں مسلسل اضافہ ہوا۔ انڈین ایکسپریس نے 20 اپریل کے اداریئے میں لکھا: دونوں ممالک کرنسی کے تبادلے پر کوئی معاہدہ نہیںکرسکے اس کے باوجودگزشتہ دس برسوں میں دونوں منقسم خطوں میں تجارتی حجم 300 کروڑ روپے (بھارتی روپیہ) سے تجاوز کرگیا۔ اس تجارت کی اقتصادی منطق کے بارے میں بات کرتے ہوئے دی ہندو نے 23 اپریل کے اداریئے میں دلچسپ حقائق بیان کیے :تجارتی حجم 600 کروڑ روپے (بھارتی روپیہ) تک پہنچ چکا ہے۔اخبار لکھتاہے کہ یہ ذہن میں رکھا جانا چاہئے کہ تجارت زیادہ تر مقامی اشیاء کی جاتی ہے، اور نقل و حمل کے لیے روزگار سرحدی علاقوں کے لوگوں کو ملا۔ بھارت میں بہت سارے مبصرین تجارت معطل کرنے کے فیصلے کو بھارت میں جاری انتخابی مہم کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔پاکستان سے تعلقات کو نچلی سطح پر لے جانے اور کشمیریوں کو دیوار سے لگانے کی کوششوں کے عمل کا حصہ اس فیصلے کو بتایاجاتاہے۔بی جے پی کاالیکشن ایجنڈا اور نعرے یہ بتاتے ہیں کہ وہ آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے جموں وکشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ بنانے کے درپے ہے۔وہ آئین کی حفاظت 35-A کو منسوخ کرکے کشمیریوں کی عدی برتری، علاقائی شناخت اور خصوصی حیثیت کے خاتمے کی خواہش مند بھی ہے۔یاد رہے کہ بارہ مولہ جموں شاہراہ کی شہریوں کے لیے ہفتے وار بندش نے پہلے ہی کشمیریوں کو آگ بگولہ کررکھا ہے۔ راولاکوٹ -پونچھ کے تاجروں کے صدرسردار قضیم خان نے اس کالم نگار کو بتایا:یہ بہت ہی ہنگامی فیصلہ تھا۔ اس نے دونوں اطراف کے لگ بھگ چارسو بیوپاریوں کو کنگال کردیا۔ہماری کمر توڑڈالی۔ لاکھوں نہیں کروڑوں روپے مالیت کا سامان گھل سڑ گیا۔آڑھتی ہماری جان کو اٹکے ہوئے ہیں۔ جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صد رراکیش گپتا نے تجارت کی معطلی پر سخت افسوس کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ تجارت کو سیاست کے بھینٹ نہیں چڑھایاجانا چاہے۔ سرینگر میں قائم کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے کہا کہ اگر ہماری تجاویز کے مطابق فل باڈی سکینر ، سی سی ٹی ویزکیمرے، بینکنگ کی سہولیات، مواصلات کے بنیادی ڈھانچے اورتاجروں کی ازسر نو تصدیق جیسے اقدامات کرلیے جاتے تو دہلی کو آج یہ ناخوشگوار فیصلہ نہ کرنا پڑتا۔ طویل عرصے سے سری نگر، جموں ، مظفرآباد اور پونچھ کے تاجرمشترکہ طور پرمطالبہ کرتے رہے ہیں کہ تجارت میں شفافیت لانے کے لیے سری میں قائم جموں و کشمیر بینک اور آزاد جموں و کشمیر بینک کی شاخیں کنٹرول پر قائم تجارتی مراکز میں کھولی جائیں تاکہ 18 ویں صدی کے بارٹرسے چھٹکارا پایاجاسکے۔ ستمبر 2012 ء میں پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور ان کے ہم منصب ایس ایم کرشنا نے کنٹرول لائن پر جاری تجارت میں بہتری کے لیے کئی ایک اقدامات کرنے اور غیر ضروری پابندیوں کے خاتمے پر اتفاق کیا تھا۔حتیٰ کہ وزرائے خارجہ نے دونوں طرف کے کاروباری وفودکے تبادلوں پر بھی رضا مندی کا اظہارکیاتھا۔ افسوس! متعدد داخلی سیاسی مسائل، کشمیر میں جاری تحریک میں آنے والی شدت ، کنٹرول لائن پر جاری فائرنگ اور پٹھانکوٹ ائربیس پرحملے نے دونوں ممالک کوبنیادی ڈھانچہ اور تجارتی قواعد و ضوابط کو بہتر بنانے کا موقع ہی نہیں دیا۔ تجارت اور سفر سے منسلک متعدد مسائل کو مقامی حکومتوں کی سطح پر حل کیاجاسکتاہے لیکن ایسا کوئی میکانزم نہ بن سکا۔دونوں اطراف کے حکام تاجروں کی رجسٹریشن، سامان کی واپسی اور تبادلے، تجارتی توازن وغیرہ جیسے مسائل کو کنٹرول لائن پر قائم تجارتی مراکز میں مل بیٹھ کر حل کرسکتے ہیں۔اس طرح کے معمولی فیصلوں کے لیے اسلام آباد اور دہلی کے افسروں کی بیٹھک کے انتظار کی چنداںضرورت نہیں۔ بھارت نے تحفظات دور ہونے کے بعد تجارت کی بحالی کا عندیہ دیاہے جو کہ ایک مثبت عمل ہے۔دونوں ممالک کو چاہیے کہ ریاست کے دونوں خطوں کے درمیان جاری سفر اور تجارت کے سلسلے کودوطرفہ کشیدگی سے الگ رکھیں۔ایسے اقدامات کریں جو سفری اور تجارتی سہولتوں کو مزید موثر بناسکیں نہ کہ انہیں پابندیوں کا شکار کیاجائے۔