بھارت کے موجودہ وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کے چہیتے آفیسر تھے۔ آخر کیوں نہ ہوتے۔ بھارتی فارن آفس میں امریکہ ڈیسک کے سربراہ کے ہوتے ہوئے انہوں نے بھارت ۔امریکہ جوہری معاہدہ کو حتمی شکل دینے اور اسکو امریکی کانگریس سے منظوری دلوانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ انعام کے طور پر 2013ء میں من موہن سنگھ نے ان کا نام خارجہ سیکرٹری کے لئے تجویز کیا، جس کی کانگریس پارٹی کے اندر سے سخت مخالفت ہوئی۔ وزیر اعظم کو بالآخر سرخم کرکے سجاتا سنگھ کو خارجہ سیکرٹری بنانا پڑا۔ ایک طرح سے لگتا تھا کہ جے شنکر کا کیریئر اب ختم ہوگیا ہے۔ مگر جنوری 2015ء کو جب امریکی صدر بارک اوبامہ بھارت کا دورہ ختم کرکے طیارہ میں سوار ہوگئے، تو وزیر اعظم نریندر مودی نے سجاتا سنگھ کو معزول کرکے جے شنکر کو سیکرٹری خارجہ بنا دیا۔ وہ صرف دو دن بعد ریٹائرڈ ہونے والے تھے۔ جے شنکر اسوقت امریکہ میں بھارت کے سفیر تھے اور اوبامہ کے دورہ کے سلسلے میں نئی دہلی آئے ہوئے تھے۔انہیں فی الفور رات کو ہی فارن آفس میں رپورٹ کرنے اور عہدہ سنبھالنے کیلئے کہا گیا۔ اس طرح غیر رسمی طور پر یا اکھڑ پن سے خارجہ سیکرٹری کو معزول کرنے کا بھارت میں یہ دوسرا واقعہ تھا۔ اس سے قبل 1987ء میں اسوقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ہی اپنے سیکرٹری خارجہ اے ، پی ، وینکٹشورن کو معزول کیاتھا۔ اس کی کہانی کچھ یوں ہے ۔ نئی دہلی میں مقیم پاکستانی صحافی عبدالوحید حسینی نے پریس کانفرنس کے دوران راجیو گاندھی سے ان کے پاکستانی دورہ کے بارے میں سوال کیا۔ گاندھی نے کہا کہ ان کے پاکستان دورہ کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ مگر حسینی نے دوسرا سوال داغا کہ ان کے خارجہ سیکرٹری تو صحافیوں کو بتار ہے ہیں کہ وزیر اعظم کا دورہ پائپ لائن میں ہے؟گاندھی نے جواب دیا کہ خارجہ سیکرٹری اب اپنے عہدہ پر نہیں ہیں۔ جلد ہی نئے فارن سیکرٹری کا تعین کیا جا رہا ہے۔ وینکٹیشورن جو پریس کانفرنس ہال میں ہی بیٹھے تھے، نے چپکے سے اپنا استعفیٰ تحریرکرکے وزیر اعظم کو ہال میں ہی تھما دیا۔ اگلے سال سارک سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے راجیو گاندھی اسلام آباد دورہ پر آگئے تھے ، جہاں بے نظیر بھٹو کے ساتھ سیاچن مسئلہ پر پہلی بار مذاکرات کی میز پر کوئی پیش رفت ہوئی تھی۔ جے شنکر کو خارجہ سیکرٹری کے عہدے پر فائز کرنے کی کانگریسی لیڈران نے اسلئے مخالفت کی تھی کہ ان کے مطابق ایک امریکہ نواز آفیسر کو اس اہم عہدہ پر فائز کرانے سے بھارت کی غیر جانبدارانہ شبیہ متاثر ہوگی۔ وکی لیکس فائلز نے جے شنکر کی امریکہ کے ساتھ قربت کو طشت از بام کردیا تھا۔ بتایا گیا کہ جے شنکر کی تعیناتی سے ہمسایہ ممالک سے تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ 2004ء سے 2007ء تک جے شنکر فارن آفس میں امریکہ ڈیسک کے انچارج تھے۔ ان کا نام بار بار امریکی سفارتی کیبلز میں آیا ہے۔25اپریل 2005ء کو دہلی میں چارج ڈی آفییرز رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ جے شنکر نے ان کو بتایا ہے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں کیوبا کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ اسی طرح19 دسمبر 2005ء کو ایک دوسری کیبل میں امریکی سفارت خانہ کا کہنا ہے کہ جے شنکر نے ان کو خارجہ سیکرٹری شیام سرن کے دورہ امریکہ کے ایجنڈہ کے بارے میں معلومات دی ہیں۔ امریکی عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں میں بھارتی موقف کی جانکاری خارجہ سیکرٹری کے واشنگٹن پہنچنے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو مل چکی تھی۔ مگر سب سے زیادہ ہوشربا معلومات بیجنگ میں امریکی سفارت خانہ نے واشنگٹن بھیجی۔ اس میں بتایا گیا کہ چین میں بھارت کے سفیر جے شنکر نے چین کے ہمسایہ ممالک کے تئیں جارحارنہ رویہ کو لگام دینے کیلئے امریکہ کی معاونت کرنے کی پیشکش کی ہے۔ یعنی ایک طرح سے وہ نئی دہلی میں حکومت کی رضامندی کے بغیر امریکہ کے ایک معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ایک اور کیبل میں اپریل 2005ء میں رابرٹ بلیک لکھتے ہیں کہ گوانٹنامو بے کے معاملے پر بھارت ، جنوبی ایشیائی ممالک کاسا تھ نہیں دیگا، جنہوں نے اقوام متحدہ میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔ اسکے علاوہ جے شنکر نے ایک نان پیپر امریکی انتظامیہ کو تھما دیا تھا ، جس میں تھائی لینڈ کے ایک سیٹلائٹ کی جانکاری تھی، جو بھارتی راکٹ کے ذریعے مدار میں جانے والا تھا۔ جے شنکر بھارت کے مشہور اسٹریجک امور کے ماہر آنجہانی آر سبرامنیم کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے 1977ء میں فارن آفس جوائن کی۔ معروف دفاعی تجزیہ کار بھارت کرناڈ کے مطابق جے شنکر کی کابینہ میں شمولیت سے بھارت کا امریکی پٹھو ہونے کا آخری پردہ بھی چاک ہو گیا ہے۔ ان کی تعیناتی بھارت کی اسٹریجک خود مختاری کے حوالے سے خاصی اہم ہے۔ (جاری ہے)