بقول مرشدی یوسفی بشارت فاروقی کے سسر الحذر ہجرت کرکے کرانچی وارد ہوئے ۔ فرمایا کرتے تھے جب دیکھو یہاں کوئی نہ کوئی پھڈا اور لفڑا ہوتا رہتا ہے۔پوچھو کہ کیا اردو میں اس صورتحال کے لئے کوئی معقول لفظ نہیں ہے؟تو جواب ملتا ہے کہ بھائی میرے اردو میں یہ صورتحال بھی تو نہیں ہے۔بکھری ہوئی بظاہر متحدہ اپوزیشن کی موجودہ صورتحال کے لئے بھی کوئی معقول لفظ نہیں ہے۔مقننہ کا ایوان ہو یا ایوان بالا اس کا کام حلق اور کاپیاں پھاڑنا رہ گیا ہے۔ سینیٹ کے اجلاس میں اپوزیشن نے بظاہر یہ آئینی نکتہ اٹھا کر صدارتی آرڈیننس کی کاپیاں ہوا میں پرزے کرکے اچھال دیں کہ سیشن کے پہلے دن آئینی طور پہ صدارتی آرڈیننس بحث کے لئے پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ جس پہ ڈپٹی چئیرمین سینیٹ نے دندان شکن جواب دیا کہ یہ آپ نے ہی طے کیا ہے کہ اپوزیشن کی فرمائش پہ بلائے جانے والے اجلاس میں حکومتی کاروائیاں زیر بحث نہیں لائی جاسکتیں۔مزید یہ کہ آرڈیننس صدر کا صوابدیدی اختیار ہے ۔ اس قانون میں تبدیلی کرنی ہے تو اپوزیشن ترمیمی بل پیش کرے۔ اس پہ اپوزیشن نے ہنگامہ ہائے ہاو ہو سے ایوان کی منقش چھت سر پہ اٹھالی اور چلتی بنی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صداراتی آرڈیننس پہ آرڈیننس فیکٹری کی پھبتی ان لوگوں نے کسی جن کے صدر آصف علی زرداری نے یوسف رضا گیلانی کے اقدامات کو آئینی تحفظ دینے کے لئے متنازعہ آرڈیننس جاری کیا تھا جس کی رو سے وزیر اعظم کے دیگر ممالک کے ساتھ کئے گئے تمام معاہدوں،اداروں میں من پسند تقرریوں اور صدر کو دی جانے والی ہدایات کو مکمل اورمطلق اختیارات حاصل ہوگئے تھے جنہیں ملک کی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا۔ان کے اس عمل کو مشرف بہ جمہوریت کرکے خوشی کے شادیانے بجائے گئے لیکن درحقیقت سب جانتے تھے کہ ملک میں حکومت کس کی ہے۔ موصوف اپنے دو وزرائے اعظم قربان کرکے پانچ سال صدارت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ یہی شور ان لوگوں نے مچایا جو قانون سازی کے لئے پارلیمانی کمیٹیاں بننے ہی نہیں دیتے تھے تاوقتیکہ کہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سربراہی شہباز شریف کو نہ سونپ دی گئی۔قانون سازی میں یہ دونوں پارٹیا ں اپنے ادوار میں سوائے تحریک انصاف کے، دوستانہ حزب اختلاف کے باوجود اپنے پہلے سال میں کوئی قابل ذکر قانون سازی نہ کرسکیں۔تحریک انصاف پارلیمنٹ میں اپنی ڈھل مل اکثریت اور پنجے تیز کئے متحدہ اپوزیشن کے باوجود اپنے پہلے سال میں دس قانونی بل منظور کروا چکی ہے جن میں پہلے سات ماہ قانون سازی اسی مذکورہ علت کے باعث ممکن ہی نہیں ہوئی۔نون لیگ کی حکومت کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل تھی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ اس کا ہنی مون چل رہا تھا اس کے باوجود وہ پہلے سال میں صرف نو بار قانون سازی کرسکی جس میں بجٹ اور تحفظ پاکستان بل بھی شامل تھا۔ پیپلز پارٹی نے مشرف دور کے بعد سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ اسے ہر قسم کی اخلاقی اور آئینی حمایت حاصل تھی اور تحریک انصاف جیسی اپوزیشن ابھی گھٹنوں گھٹنوں چل رہی تھی۔ اس کے باوجود پہلے سال وہ صرف چار ایکٹ لا سکی جن میں بجٹ بھی شامل تھا۔ البتہ تہتر کے آئین کی بحالی پارلیمنٹ کی مشترکہ خواہش تھی لہذا اٹھارویںا ور بیسویں ترمیم پیپلز پارٹی کے کریڈٹ پہ موجود ہے۔آج موجودہ حکومت کے ساتھ اپوزیشن کا رویہ اور قانون سازی میںا س کی سنجیدگی کا عالم سب کے سامنے ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کا اسکور زیادہ ہی نظر آرہا ہے۔انہیں مقننہ میں بیٹھ کر قانون سازی نہیں کرنی، صدارتی آرڈیننس کے پرزے اڑانے ہیں تو آئینی معاملات حل کیسے ہونگے کوئی بزرجمہر اس پہ بھی روشنی ڈال دے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن نے ہنگامہ پروری کے ذریعے کار ریاست کو مقننہ میں ہی معطل کرنے کا ارادہ باندھ رکھا ہے۔ دوسرا محاذ مولانا فضل الرحمن نے سنبھال رکھا ہے جو پارلیمنٹ سے باہر سجایا گیا ہے لیکن ان کے فرزند ارجمند مکمل طور پہ پارلیمنٹ کی مراعات سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور ہر بار اجلاس میں شین قاف کی درستی کے ساتھ حکومت پہ گرج برس کے چلے جاتے ہیں۔ تو کل ملا کر یہی گھڑمس مچی ہوئی ہے یعنی حکومت کو چلنے نہیں دینا ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب آپس میں بھی ہاتھ کررہے ہیں۔ادھر نواز شریف اپنے پیروں پہ چل کر گھر پہنچ گئے ہیں۔ادھر ان کی صاحبزادی کی ضمانت ہوگئی ہے اور وہ بیمار والد کی تیمارداری کا تمام تر بوجھ اپنے نازک کاندھوں پہ محسوس کرتی ہیں یعنی کہ اس قدر کہ انہوں نے مولانا کے دھرنے میں شرکت سے بھی انکار کردیا ہے۔پہلے ان کا پاسپورٹ عدلیہ نے ضبط کررکھا تھا اور نواز شریف کسی صورت اپنے کارکنوں اور رہنماوں کو چھوڑ کر بیرون ملک علاج پہ رضامند نہیں تھے۔ اب وہ دل پہ پتھر رکھ کر لندن میں علاج کروانے پہ راضی ہوگئے ہیںا ور دختر نیک اختر کے ساتھ روانگی کے لئے بالکل تیار ہیں۔ایسے میں سخت موسم اور بارش میں پھٹی جوتیوں والے غریب کارکنان کے ساتھ دھرنا دیئے زرد دستار مولانا کے لہجے میں تلخی آنا لازمی تھا۔ وہ اب کی بار ایسا بولے کہ جس کے بعد واپسی کا راستہ نہیں رہتا۔ اس بار انہوں نے کھلے الفاظ میں دھمکیاں دی ہیں اور سرخ لکیریں عبور کرگئے ہیں۔ ایسی سرخ لکیریں کسی اور نے بھی عبور کی تھیں اور اس کو پالنے پوسنے والوں کی برداشت جواب دے گئی تھی۔ آج وہ نہ میڈیا پہ نظرا ٓتا ہے نہ آڈیو کال پہ اس کی لہکتی چہکتی آواز سنائی دیتی ہے جس میں پورے دومنٹ تو وہ پوری مہاجر قوم کو فردا فردا سلام پیش کیا کرتا تھا۔ اگر کسی کو سیف ایگزٹ کا مطلب پوچھنا ہے تو میں بتانے کے لئے تیار ہوں ۔ سیف ایگزٹ کا مطلب ہے فیس سیونگ۔ اور فیس سیونگ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سرخ لکیریں عبو ر کی جائیں۔مقتدرہ ایسی حرکتوں کو نہایت دلچسپی سے نوٹ کرے گی اور آپ کی جان اس پھندے سے چھڑا دے گی جس سے نکلنا آپ کے لئے مشکل ہوگیا ہے یعنی آپ کی سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کی جس منجی سے چپکے چپکے سب ایک ایک کرکے اتر گئے ہیں اسے کہاں ڈھایا جائے۔ یعنی آپ کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آرہی کہ اس عمر میں آپ کی سیاست کا مستقبل آخر ہے کیا سوائے اس کے کہ فرزند ارجمند پارلیمنٹ میں موجود ہے جو کبھی استعفی نہیں دے گا۔آپ کے پاس جو افرادی قوت ہے وہ ریاست کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اپوزیشن کا حال سب کے سامنے ہے۔ اس نے پارلیمنٹ میں ہنگامے کرکے حکومت کو مفلوج کرنے کی حکمت عملی اپنا لی ہے۔ اس لئے مناسب حکمت عملی یہی ہے کہ کھیلن کو چاند مانگا جائے یعنی ان مطالبات پہ ڈٹے رہا جائے جنہیں کبھی پورا نہیں ہونا۔ سرخ لکیروں پہ اندھا بھینسا کھیلا جائے تو بہت جلد اس سیاست سے جان چھوٹ جائے گی جس میں اب کچھ نہیں دھرا۔ اگر کرپشن کیس نہ کھلے تو باقی عمر یاد اللہ اور ابوالکلام آزاد میں گزار لی جائے تو کیا ہی بات ہے۔