27 برس بعد ایک بار پھر کوہ قاف کے دو ملکوں آذر بائیجان اور آرمینیا میں جنگ بچھڑ گئی ہے اور دو روز کی جھڑپوں کے دوران دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے سینکڑوں فوجی ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن درحقیقت مرنے والوں کی تعداد اس سے بہت کم ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آذر بائیجان نے شمال اور مشرق کی سمت سے کئی مقامات پر پیش قدمی کی ہے اور کم از کم ایک درجن قصبات‘ دیہات اور پہاڑی چوکیاں آرمینیا سے واپس لے لی ہیں۔ جنوبی کوہ قاف کے ان دونوں ملکوں کی یہ جنگ دراصل اس لڑائی کا حصہ ہے جو 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1991ء میں شروع ہوئی اور 1993ء میں تب ختم ہوئی جب جارحیت کرنے والے آرمینیا نے آذربائیجان کے لگ بھگ ایک چوتھائی رقبے پر قبضہ کرلیا۔ دنیا کے کسی ملک یا عالمی ادارے نے اس جارحیت کو نہیں روکا‘ کمزور آذر بائیجان صبر کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ دونوں ملک سابق سوویت یونین کا حصہ تھے اور سوویت اور آرمینی باشندوں کی ایک تعداد آذربائیجان کے علاقے نگورنو کا کارا باخ میں آباد ہو گئی اور اکثریت حاصل کرلی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد آرمینیا نے دعویٰ کیا کہ چونکہ نگورنو کار اباخ میں آرمینی باشندوں کی اکثریت ہے اس لیے یہ علاقہ ہمارے حوالے کردیا جائے۔ نگورنو کے چاروں طرف آذر بائیجان کا علاقہ ہے۔ آرمینیا نے نہ صرف اس جنگ میں نگورنو کارا باخ کا سارا علاقہ بلکہ ملحقہ رقبے بھی چھین لیے اور یوں آذری باشندوں کی ایک بڑی تعداد بھی آرمینیا کی ’’غلام‘‘ بن گئی۔ قبضے کے بعد آرمینیا نے ترکوں سے پاک نگورنو کا نعرہ لگوایا، جس کے بعد نگورنو سے ترکوں یعنی آذریوں کا انخلا شروع ہو گیا۔ نگورنو کارا باخ کا علاقہ عالمی اداروں کے مطابق آذر بائیجان کا تسلیم شدہ علاقہ ہے لیکن اس پر آرمینیا کے قبضے کو بھی خاموشی سے تسلیم کرلیا گیا۔ صورتحال پچھلے برس سے تبدیل ہونا شروع ہوئی، جب ترکی نے آذر بائیجان سے معاہدے کئے‘ اسے فوجی امداد دینا شروع کی اور اس کی فوج کو اس قابل بنایا کہ وہ لڑ سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آرمینا چھوٹا ملک ہے لیکن اس کی فوج بڑی ہے۔ آذر بائیجان بڑا ملک ہے لیکن فوج چھوٹی ہے۔ آرمینیا کی کل آبادی تیس لاکھ اور اس کی فوج ستر ہزار سے زیادہ ہے۔ پچاس ہزار ریگولر آرمی اور بیس ہزار زیرو۔ آبادی کے تناسب سے یہ فوج بہت زیادہ ہے۔ آذر بائیجان کی آبادی ایک کروڑ ہے اور حال ہی میں اس کی فوجی نفری بڑھ کر پچاس ہزار ہو گئی ہے۔ اس کے پاس ہتھیاروں کی کمی تھی جو ترکی نے دور کی۔ ترکی نے گزشتہ ماہ ایک پان ترک اتحاد بھی قائم کیا ہے جس کے فی الحال دو ہی رکن ہیں۔ ایک ترکی‘ دوسرا آذر بائیجان۔ خیال ہے کہ آنے والے برسوں میں وسط ایشیا کے ترک ممالک بھی اس کا حصہ بن سکتے ہیں اور بلقان کی ترک جمہوریائوں کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ حالیہ جنگ میں ترکی کے ڈرون طیاروں نے آذر بائیجان کی ڈرامائی مدد کی اور انہی طیاروں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا جس کی وجہ سے آذریوں نے دس بارہ دیہات و قصبات آزاد کرالئے۔ روس اور ایران جنگ بندی کے لیے سرگرم ہیں کیونکہ اگر جنگ جاری رہی اور آذر بلائیجان نے اپنے کھوئے ہوئے علاقوں میں سے کچھ واپس لے لئے تو وہ مضبوط ہو جائے گا اور یہ وہ امکان ہے جس سے ایران خوفزدہ ہے۔ ایران کے شمالی صوبے کا نام بھی آذربائیجان ہے جہاں ترکوں کی اکثریت ہے۔ روس بھی اس امکان کو ناپسند کرتا ہے۔ آذر بائیجان ایک لحاظ سے لینڈ لاکڈ ملک ہے اور ایک طرح سے نہیں بھی۔ لینڈ لاکڈ اس طرح سے ہے کہ اس کے پاس کسی بھی کھلے سمندر کا ساحل نہیں اور نہیں اس طرح سے کہ اس کا مشرقی علاقہ ایک بند سمندر کے ساحل پر واقع ہے۔ اس بند سمندر کے چاروں طرف خشکی ہے اور اس کے ساحل پر ایران‘ ترکمانستان‘ ازبکستان‘ قازقستان اور روس آباد ہیں۔ یعنی آذر بائیجان کم از کم چار ممالک سے سمندری تجارت کرسکتا ہے۔ اس کی سرحدیں روس اور جارجیا سے ملتی ہیں۔ آذر بائیجان اور ترکی کے درمیان آرمینیا حائل ہے لیکن جارجیا کے توسط سے دونوں ملکوں میں رابطے ہیں۔ آذر بائیجان کا ایک علاقہ نخی چیوان ترکی سرحد سے ملتا ہے لیکن یہ باقی میں لینڈ سے دور ہے اور دونوں کے درمیان آرمینیا ہے۔ کوہ قاف کا جنوبی علاقہ 1990ء میں سوویت یونین کے قبضے سے آزاد ہوگیا۔ اس میں چار ممالک ہیں۔ آرمینیا‘ آذر بائیجان‘ جارجیا اور ابخازیہ۔ شمالی کوہ قاف بدستور روس کا علاقہ ہے اور اس میں داغستان‘ چیچینا‘ انگویشینیا‘ شمالی اوسینیا‘ چرکیشیا‘ کلماکیا وغیرہ دس بارہ مسلم ریاستیں ہیں۔ جہاں گاہے بگاہے آزادی کی تحریکیں سر اٹھاتی ہیں اور دم توڑ دیتی ہیں۔ روس کو خدشہ ہے کہ ترکی مضبوط ہوا اور آذر بائیجان اس کے ساتھ یک جان ہوا تو شمالی کاکیشیا اس کے لیے شدید مسئلہ بن جائے گا۔ ماضی قریب میں چیچنیا کی جنگ آزادی نے روس کو بھاری نقصان پہنچایا تھا۔ روس میں ترکی ریاستیں صرف کوہ قاف میں ہی نہیں ہیں‘ بہت شمال میں‘ ماسکو سے چند میل کی دوری پر ایک خود مختار جمہوریہ تاتارستان بھی واقع ہے۔ اس کے علاوہ مشرق میں بھی دو مسلم ریاستیں ہیں۔ روس کی مجبوری یہ ہے کہ خطے کے حالات میں وہ ترکی پر حملہ نہیں کرسکتا بلکہ امریکہ اور نیٹو کے پیش نظر اس بات پر بھی مجبور ہے کہ ترکی سے دوستانہ تعلقات رکھے۔ اداس کن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے پیشتر عرب ممالک کوہ قاف کی اس جنگ میں مسلم آذربائیجان کی بجائے اپاسٹل آرمینیا سے ہمدردی رکھتے ہیں۔