روئے سخن نہیں تو سخن کا جواز کیا بن تیرے زندگی کے نشیب و فراز کیا یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا ہم روز اپنی آرزو کو دعا بناتے ہیں کہ اللہ پاک ہمارے پیارے وطن کو پھر سے پٹڑی پر چڑھا دے۔کوئی بھی اپنے ملک کو پرفتن نہیں دیکھنا چاہتا ہے مگر کیا کریں کہ اقبال ساجد کا شعر ہمیں متزلزل کرنے آ جاتا ہے۔ جہاں بھونچال بنیاد فصیل و در میں رہتے ہیں۔ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی ایشو اور کوئی نہ کوئی حادثہ ہمارے تعاقب میں رہتا ہے وہی کہ جو انوری نے کہا تھا کہ آفات نے اس کا گھر دیکھ لیا ہے۔ ابھی دیکھ رہا تھا کہ ملت ایکسپریس حادثے کا شکار ہو گئی کراچی سے سرگودھا جانے والی ٹرین کی بوگیاں ٹریک سے اتر گئیں۔ کچھ دیر بعد راولپنڈی سے کراچی جانے والی سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔پیر کی دوپہر تک 35 افراد جاں بحق اور پچاس کے قریب زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں جبکہ ان میں اضافے کا خدشہ تھا ۔سکھر گھوٹکی اور روہڑی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے۔ یہ حادثہ کوئی پہلا نہیں۔ اعظم سواتی صاحب کا حادثے کے چار گھنٹے کے بعد بھی کوئی بیان نہیں آیا تھا۔ ان سے پہلے شیخ رشید کے ہوتے بھی مسلسل حادثات ہوتے رہے ہیں۔ مقصد یہ کہ کسی نے بھی سنجیدگی سے حادثات کا نوٹس لے کر ان کے تدارک کی کوشش نہیں کی۔ ویسے کسی کے استعفیٰ سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا۔ قلمدان بدل جاتا ہے بس۔ ہمیں خان صاحب کے اس بیان سے صد فیصد اتفاق ہے کہ سربراہان مملکت اور وزراء کرپٹ ہوں تو ملک مقروض اور دیوالیہ ہو جاتا ہے ۔مگر آپ کے وزیر مشیر تو اکثر نشانے پر رہے۔ آپ احساس پروگرام سے لے کر شجر کاری تک اور اب ماحول کو صاف ستھرا بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں مگر جو کام ترجیح میں پہلے نمبر پر کرنے والا ہے وہ آخر میں بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔ عوام کو صاف ستھرا اور صحت مند ماحول چاہیے درست کہ شجر کاری انہی کے لئے ہے مگر خالی پیٹ کچھ بھی اچھا نہیں لگتا اچانک شعر یاد آ گیا کہ: تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے اب بجٹ کی آمد آمد ہے اور پنشن لینے والوں پر یہ خبر بجلی بن کر گری ہے کہ آئی ایم ایف کی یہ شرط قبول کر لی گئی ہے کہ پنشنرز پر ٹیکس لگے گا۔ اسے کہتے ہیں کہ مرے کو مارے شاہ مدار، پنشن لینے والے بے چارے پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس کر آدھے رہ گئے ہیں یہ آدھے رہ جانا کوئی زیب داستان کے محاورہ نہیں گھڑا گیا واقعتاً ان کی پنشن آدھی رہ گئی ہے اسے ثابت کرنا چنداں مشکل بھی نہیں۔ چینی 45سے 100روپے گھی 150سے 300 ہوا آٹا 40سے 80روپے اور دوائیاں تو خیر پانچ صد گنا بڑھ چکی ہیں۔ ہسپتالوں سے مفت دوائی اور ٹیسٹ بند کر دیے گئے ہیں۔ دودھ 90سے 140روپے مکانوں کے کرایہ جات میں اضافہ۔ سرکاری ملازمین کو لیموں کی طرح کیوں نچوڑ ا جا رہاہے: اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا لہو آتا ہے جب نہیں آتا اشک ختم ہو جاتے ہیں تو پھر مزید زور لگانے پر اشکوں کی جگہ خون ہی برآمد ہو گا۔ شاید خون کے آنسو رونا اس کو کہتے ہیں۔ واقعتاً پے درپے اشیائے صرف میں ہونے والی گرانی سے لوگ پتھرا سے گئے ہیں۔اب تو فقیر بھی 10روپے نہیں لیتا۔ میں نے ایئر پورٹ پر دیکھا کہ فقیر ریال اور ڈالر بھی مانگ لیتے ہیں۔ انہیں تجربے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ شکار کہاں کا ہے۔ اب تو فقیر بہتات میں ہو گئے ہیں۔ بعض اشاروں اور چوراہوں پر فقیر اپنی فیملیز یعنی خاندان لے کر بیٹھے ہیں اب تو ان کے طعام و قیام کا بھی بندوست ہو چکا ہے۔ پولیس کو سب معلوم ہے کہ فقیروں کو باقاعدہ تین تین ماہ کے لئے جگہیں الاٹ ہوتی ر ہیں: آگے کس کے کیا کریں دست طبع دراز وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے بھارت میں کورونا کی انتہائی تشویشناک صورتحال کے باوجود مہنگائی 4.29اور بنگلہ دیش میں 5.54جبکہ پاکستان اچھی صورت حال میں تھی ہمارے ہاں مہنگائی کا جواز سمجھ سے باہر ہے، سرکاری طور پر مگر سب کچھ ترقی کی طرف گامزن ہے، گروتھ ریٹ بھی چار ہو چکا اور اشاریے بھی بلند ترین سطح کو چھوڑ رہے ہیں۔ معیشت مشکل سے نکل چکی مگر عوام تو ۔ آخری بات یہ ہے کہ خان صاحب کے پاس وقت کم ہے انہیں کوئی معجزہ ہی دکھانا ہو گا۔ آپ معجزہ نہ کہیں کرامت کہہ لیں سرکاری ملازمین کا گلہ نہ گھو نٹیں،پنشنر بے چارے تو کب کا سوچ کر بیٹھے تھے کہ پنشن میں اضافہ ہو گا ویسے سرکاری لوگوں کے بھی ووٹ ہوتے ہیں پنشنرز کے بھی: کوئی آنکھوں میں لے کر وفا کے دیے کوئی رستے میں بیٹھا ہے تیرے لئے