کوئٹہ کے نواحی علاقے سیٹلائٹ ٹائون کی مسجد میں بم دھماکے سے 15نمازی شہید جبکہ 19زخمی ہوئے ہیں۔ مسجد دارالعلوم الشریعہ سے ملحق تھی اور دھماکے کے وقت وہاں نماز مغرب ادا کی جا رہی تھی۔شہید ہونے والوں میں ایک ڈی ایس پی اور امام مسجد شامل ہیں۔ متعدد زخمیوں کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ دھماکے کے بعد مقامی ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور ایف سی نے علاقے کا محاصرہ کر لیا۔ صدر عارف علوی‘ وزیر اعظم عمران خان‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر اہم شخصیات نے واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا جبکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے دہشت گردانہ حملے کی رپورٹ متعلقہ اداروں سے طلب کی ہے۔ پاکستان گزشتہ 18برس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کو دو سطح پر لڑنا پڑا پہلی جنگ خطے میں امریکی مداخلت کی مزاحمت اور انتہا پسندی کو ملا کر بیانیہ تخلیق کرنے والے گروہوں کے خلاف لڑی۔ طالبان‘ داعش اور ان کے ذیلی گروہ اس درجہ بندی میں آتے ہیں۔ پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ہے اس لئے افغانستان کی خانہ جنگی‘ جہاد اور پھر دہشت گردی کے خلاف وہاں لڑی جانے والی جنگ نے الگ سے پاکستان کو متاثر کیا۔ پاکستانی قوم نے ہزاروں شہادتیں پیش کیں‘ اربوں ڈالر کا نقصان اٹھایا‘ قومی تعمیر و ترقی پر خرچ ہونے والے بہت سے سال اس جنگ سے نبرد آزما ہوتے گزار دیے اور خود کو کئی طرح کے خطرات کا شکار بنایا۔ دوسری جنگ ان عناصر سے ہے جو بھارت اور دیگر ملک دشمن طاقتوں کے اشارے پر پاکستان میں بدامنی اور انتشار پھیلانے میں مصروف ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ معدنیات اور توانائی کے ذخائر کی کمی نہیں۔ یہ وسائل بھر پور طریقے سے استعمال کئے جائیں تو بلوچستان کے لوگوں کی زندگی بدل جائے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کچھ قبائلی سردار ان قدرتی وسائل پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لئے ریاست کو انصاف دشمن اور عوام کے حقوق کی غاصب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تعلیم‘ صحت اور رہائش کی سہولتوں سے محروم سادہ لوح افراد ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور اپنی وفاداری ریاست کی بجائے ان سرداروں کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں۔ دوسری طرف طاقت اور اختیار کے پیچھے دوڑنے والے بااثر افراد ریاست کو باور کرواتے رہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں لوگ ان کی بات مانتے ہیں لہٰذا ریاست نے مقامی آبادی کی بہبود کے لئے جو منصوبے تیار کرنے ہیں وہ یہاں کے سرداروں کی مشاورت سے بنائے۔ اقتدار کی لالچ میں مبتلا ان چند افراد کو جب کبھی اپنے مقاصدمیں کامیابی نہیں ملتی تو بلوچستان میںریلوے ٹریک‘ گیس پائپ لائنیں اور عبادت گاہیں نشانے پر آ جاتی ہیں۔ اہم شخصیات اغوا ہونے لگتی ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات جنم لینے لگتے ہیں۔ بلوچستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کے پی کے‘ پنجاب اور سندھ کی نسبت کم متاثر ہوا۔ یہاں عسکریت پسندی کے پس پردہ ہمسایہ ممالک کی سرزمین پر سرگرم گروہ ہیں۔ بلوچستان کی سرحد ایران اور افغانستان سے جڑی ہوئی ہے۔ اس وسیع و عریض صوبے کا بہت سا علاقہ ساحلی پٹی پر مشتمل ہے۔ دو ہزار کلو میٹر کے لگ بھگ کا سرحدی علاقہ اکثر مقامات پر غیر آباد ہے اس لئے اس کی نگرانی محال ہے۔ پاکستان نے افغانستان اور ایران کی سرحد پر کئی مقامات پر آہنی باڑ نصب کر دی ہے مگر ابھی بہت بڑا علاقہ ایسا ہے جہاں سرحد کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردانہ حملوں کے پس پردہ عوامل راز نہیں رہتے۔ پاکستان جانتا ہے کہ ایران اور امریکہ کی کشیدگی میں اسے کیا کردار ادا کرنا ہے۔ ریاست پاکستان کی پالیسی ہے کہ اب کسی دوسرے کی جنگوں میں شریک ہونے کی بجائے مصالحت اور دوستی کے عمل میں حصہ ڈالا جائے۔ میجر جنرل قاسم سلیمانی کی موت یقینا ایران کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے۔ ایرانی قوم غم و غصے کی کیفیت میں ہے۔ اس مرحلے پر کسی فریق کا اتحادی بننا پاکستان میں داخلی بدامنی کو بڑھا سکتا ہے۔ دہشت گردانہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین پہلے سے اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال پاکستان پر منفی طور پر اثر دکھائے گی۔ اس ساری صورت حال میں پاکستان ایک بار پھر عالمی سفارتی سرگرمیوں کا محور بن کر ابھرا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے پاکستان سے رابطہ کیا۔ پاکستان نے ایران‘ ترکی‘ ملائشیا‘ سعودی عرب‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات‘ روس اور چین سے رابطہ کر کے کشیدگی کے خاتمہ کی کوششوں پر مشاورت کی۔ یہ مثبت امر ہے کہ ایران اور امریکہ اس کشیدگی کو کم کرنے پر آمادگی ظاہر کر رہے ہیں لیکن یہ صورت حال بھارت کے لئے قابل قبول نہیں جو چاہتا ہے کہ پاکستان خطے کے کسی نئے مسلح تنازع میں الجھ جائے۔ بھارت پاکستان کو اس لئے بدامنی کا شکار دیکھنا چاہتا ہے کہ اس طرح سی پیک منصوبے التوا شکار ہو جائیں گے جس کا مطلب پاکستان کی معاشی اور تجارتی مشکلات میں اضافہ ہے۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی اس لئے سرپرستی کرتا آیا ہے کہ اس کے داخلی حالات روز بروز خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں پانچ ماہ سے پابندیاں ہیں۔ کشمیریوں پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف شہریت بل نے پورے بھارت میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ان مظاہروں میں اب تک 30افراد مارے جا چکے ہیں۔ بھارتی پولیس انتہا پسند ہندو کارکنوں کے ساتھ مسلمانوں پر حملے کر رہی ہے۔ اس صورت حال نے بھارت کی جمہوری اور سیکولر شناخت کے چہرے پر سیاہی پھیر دی ہے۔ دنیا بھر میں مودی حکومت کی مذمت ہو رہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر کے بھارت خود پر سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کوئٹہ میں ایک ہفتے میں یہ دوسرا حملہ ہے۔ سکیورٹی اداروں کو ایسے واقعات کے سدباب کے لئے اپنی حکمت عملی میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔