اپنی اپنی انا کو بھلایا جا سکتا تھا شاید سارا شہر بچایا جا سکتا تھا دکھ تو یہ ہے اس نے ہی لوٹا ہے ہم کو جس کے لئے گھر بار لٹایا جا سکتا تھا ایسے ہی ایک بھولا بسرا شعر دل پہ دستک دینے لگا کہ ’’نہ لٹتا دن کو تو کیوں رات کو یوں بے خبر سوتا۔ رہا کھٹکا نہ لٹنے کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔ اگرچہ ڈاکو اور ڈاکو راج کی کہانی نئی نہیں اور کچھ روز سے ہمارے کچھ پیارے کالم نگاروں نے اس دھندے کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ کسی نے سندھ کے کچے کے ڈاکوئوں کا تذکرہ چھیڑا کہ جن کو قابو کرنے کے لئے سندھ حکومت نے باقاعد فوج سے مدد چاہی ہے اور ہم نے اس مصرعِ طرح پر گرہ بھی لگائی تھی کہ کچے کے ڈاکوئوں کے ساتھ اگر پکے ڈاکو بھی کسی طرح گھیر لئے جائیں تو کیا ہی اچھا ہوا۔ خیر ہمارے ایک دوست نے ڈی جی خاں کے ڈاکوئوں کا تذکرہ بھی چھیڑ دیا۔ نشہ بڑھتا ہے ‘شرابیں جو شرابوں سے ملیں۔ آج علی الصبح عادت کے مطابق میں گوالے سے دودھ لینے گیا تو وہاں کچھ لوگ بیٹھے تھے ہمارے گوالے نے بتایا کہ سبزہ زار کے علاقے میں ڈاکوئوں نے باقاعدہ سڑک پر سے ایک شخص کو اٹھا لیا اور اس کے گھر لے جا کر سارا سامان لوٹا اور اسی انداز سے کچھ اور گھروں سے سونا اور نقدی لے اڑے۔ خیر یہ کوئی اچھوتی خبر نہیں۔ لاہور میں تو یہ روٹین کا معاملہ ہے۔ خبر یہ تھی کہ وہاں بیٹھے ایک شخص نے میرے افسوس کرنے پر کہا کہ بائو جی دسو اوہ ڈاکہ نہ مارن تے کیہ کرن؟۔ مجھے اس کے اس انداز گفتگو پر حیرت ہوئی۔ اس نے میری حیرت کے جواب میں کہا ،دیکھتے نہیں مہنگائی کہاں پہنچ گئی ہے جناب یہی کچھ ہو گا۔ ہائے ہائے: پھر مرے ہاتھ پائوں چلنے لگے جب مرے ہاتھ سے کنارا گیا واقعتاً میرے پاس اس عام سے شخص کی بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس سے اگلے لمحے ہمارے گوالے مجھ سے یہ کہہ کر لطف اندوز ہونے لگا۔ شاہ جی ایہدا ناں جگا جے۔ دوسرے لوگ بھی ہنسنے لگے۔’’جگے‘‘ نام سے میرا دھیان ایوب کے زمانے کی طرف چلا گیا۔ جگا دہشت کا استعارا رہا ہے۔ ویسے بھی آپ پنجابی بولیاں بھی سن چکے ہونگے۔ شاید ڈاکو ہمارے ہاں طاقت کا استعارا ہیں ذرا دیکھیے تو سہی۔ جگا جمیا فجر دے ویلے تو پیشی ویلے کھیلدا پھرے۔ یعنی جو فجر کے وقت پیدا ہوا وہ ظہر کے وقت کھیلنے لگا اور بولیاں بھی ہیں۔ جگا ٹُکیا بوہڑ دی چھاویں تے نومن ریت بھج گئی۔ جگا جہاں یعنی بوڑھ کے درخت کے نیچے قتل ہوا تو نو من ریت بھیگ گئی۔ اب بتائیے یہ کلچر کیسا ہے۔ تفنن بر طرف ڈاکو اور ڈاکو راج سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی عوام کا خیر خواہ ہو تو ان کو شکنجہ بھی ڈال سکتا ہے۔ ذرا جنرل موسیٰ کو یاد کیجیے جب اس نے آرڈر کیا تھا کہ مجھے بدمعاش شہر کی سڑک پر نظر نہیں آنا چاہیے۔ بڑے بتاتے ہیں کہ پھر ڈاکو بچنے کے لئے تھانیداروں کی منت سماجت کرکے حراست میں چلے گئے۔ سنا ہے لاہور کا جگا تب مارا گیا تھا۔ ریاست کی طاقت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ یہ ڈاکو زیادہ تر حصہ دار ہوتے ہیں لٹ کے لیائو تے سانوں وی کھلائو۔ جناب آپ حیران نہ ہوں کہ یہ جو ظالمانہ منافع خوری ذخیرہ اندوزی اور اسی طرح کے اعمال پہ ڈاکہ زنی ہی تو ہے۔بس سطح کا فرق ہے۔ چلیے چھوڑیے آپ عام سطح پر دیکھیں کہ کون کم کرتا ہے۔ ڈاکے کے خلاف اکبر کا شعر ایسے ہی ذھن میں آ گیا: ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے موجودہ صورتحال میں تو کچھ کہنا ممکن نہیں آپ سارے چینلز کے پروگرامز دیکھ لیجیے۔ بڑی جماعتیں ایک دوسرے کو اور دوسرے تیسرے کو ڈاکو ار چور سے کم تر لفظ سے نہیں یاد کرتیں آپ یقین کیجیے کہ دماغ گھوم جاتا ہے اور ایسے یقین ہونے لگتا ہے کہ یہ تینوں سچ بول رہے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے خلاف کسی بھی الزام کی نفی کوئی بھی نہیں کرتا۔ بس جوابی کارروائی میں دوسروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔پتہ چلتا ہے کہ پوری کشتی یعنی کشتی کا پور ایک ہی طرح کے لوگوں کا ہے بعض جگہ اس ڈاکے کو واردات کا نام دے دیا جاتا ہے۔ یہ چینی چوری آٹا چوری دوائی چوری اور رنگ روڈ جیسے معاملات نے ہمیں اس لئے زیادہ پریشان کیا کہ ہمارا کپتان تو ڈاکوئوں اور چوروں کو پکڑنے آیا تھا اور یہ اختیار اسے ہم ہی نے دیا تھا۔ کیا سچ مچ اس نظام نے اسے بے بس کر دیا ۔ ہم اپنا موضوع بدل کر دیکھیں بھی تو کیا دیکھیں۔ حالات بدلتے محسوس ہو رہے ہیں شہباز شریف کی روانگی کے خلاف حکومت نے اپیل واپس لے لی ہے اور دوسری طرف لیگی صدر نے توہین عدالت کیس کی پیروی نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ لگتا ہے لوگ راہ راست پر آ رہے ہیں ان کے لئے یہی راہ راہ ست ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے خاص طور پر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔ ویسے میں رجائیت پسند ہوں مجھے معلوم ہے کہ اس مرتبہ فصلیں اچھی ہوئی ہیں اور کچھ حکومت کی طرف سے اچھا بھی ہو رہا ہے وقت کی ضرورت یہ ہے کہ خان صاحب واقعتاً نظریاتی کارکنوں کو آگے لائیں۔ پیرا شوٹر سے معذرت کر لیں ۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اداروں کے خلاف کچھ لوگ سیدھے کھڑے ہو گئے ہیں اور مغرب کا میڈیا دخل دے رہا ہے۔ پوری دیانتداری سے کہہ رہا ہوں کہ وہ ادارے جو الزامات کی زد میں ہیںوہ پاکستان کے اور میرے اور آپ کے ادارے ہیں اداروں پر حملہ آور ہو کر دشمن کو فائدہ پہنچانا بڑی غلطی ہے یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے اداروں کو ورغلانے اور ان سے مفاد اٹھانے میں سیاستدان بھی تو قصور وار ہیں۔ ایک شعر: اپنے مطلب کے سوا لوگ کہاں ملتے ہیں اب کے بھی سانپ خزانے کیلئے آتے تھے