وقت کے ساتھ دنیا کے شہر خوبصورت ہوتے جاتے ہیں اور ہمارے شہر اپنا حسن گنواتے نظر آتے ہیں۔ یہ احساس مجھے اس وقت بھی ہوتا ہے جب میں اسلام آباد آتا ہوں اور اس کھوئے ہوئے شہر کو یاد کرتا ہوں جو دن کے وقت بھی کسی معصوم بچے کی طرح فطرت کی آغوش میں سویا نظر آتا تھا ۔ اب تو اس شہر کو رات کو بھی نیند نہیں آتی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور افسران اعلیٰ کی سوچ بھی اس بلڈر مافیا جیسی ہے جو سیمنٹ اور سریے کو ترقی کی علامت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ علامہ اقبال نے ہمیں یہ حقیقت سمجھانے کی کوشش کی ہے ؎ جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا مگر ہم نے فطرت سے دور جانے کا نہ فقط فیصلہ کرلیا ہے مگر اس فیصلے پر ایک عرصے سے عمل پیرا بھی ہیں۔ اس لیے ہمارا سفر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف رواں دواں ہے مگر ہم اس ٹرین کے مسافر ہیں جس کی کھڑکیا ںبند ہیں۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ ٹرین آگے جا رہی ہے مگر حقیقت میں ٹرین پیچھے کی طرف سفر کر رہی ہے۔ نہ معلوم علامہ اقبال نے کس ستارے کی بات کی تھی جس سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ وہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے۔ ہم تو اس دور میں جی رہے ہیں جہاں ہمارا سارا جہاں ہمارے سارے سسٹم کے ساتھ اپنے فطری مدار سے بھٹک گیا ہے۔ ہم اپنے احساسات اور خیالات کی ویرانی میں کھڑے ہیں اور ہمارے لبوں پر اقبال کے یہ اشعار چنگ کی طرح بج رہے ہیں ؎ آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گذرے ہیں کتنے کارواں علامہ اقبال کا یہ شعر اس وقت بھی راقم الحروف کے دل میں پیوست ہوا جب وہ چند دن قبل پاکستان کے بیحد پیارے شہر کوئٹہ میں کھڑا تھا۔ آسمان بھی وہی تھا۔ پہاڑ بھی وہی تھے ۔ سرد ہوا بھی وہی تھی مگر وہ شہر کہاں تھا جس شہر سے پورے پاکستان کے لوگ محبت کرتے تھے۔ ان سب کی حسرت ہوتی تھی کہ جب بچوں کی چھٹیاں ہوں تو وہ چھک چھک کرتی اور دھواں اگلتی ہوئی اسٹیم انجن والی ٹرین میں بیٹھ کر اس شہر کی طرف جائیں جہاں ان کے نزدیک نہیں تو دور کے رشتہ دار ؛ دوست نہیں تو دوستوں کے دوست بستے تھے۔ بات صرف سردیوں کی نہیں تھی۔ کوئٹہ میں خاص بات یہ تھی کہ کوئٹہ میں ہمیں ایک تو پورے پاکستان اور پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانی اور ایرانی کلچر کی خوشبو محسوس ہوتی تھی۔اس شہر میں کتنے غیر ملکی سیاح سکون کے ساتھ چلتے نظر آتے تھے۔ وہ دن بیتے زیادہ وقت نہیں ہوا جب اس شہر میں پولیس والوں کا وجود بہت رسمی سا محسوس ہوتا تھا۔ یہ ایک بہت پرامن اور پیار کرنے والے لوگوں کا شہر تھا۔ یہ محنت کش لوگوں کا شہر تھا۔ یہ باذوق اساتذہ اور طالب علموں کا شہر تھا۔ اس شہر میں نہ صرف بیوروکریٹس بلکہ بڑے بڑے سیاستدان اور بسا اوقات وزارت کی مسند پر بیٹھے ہوئے حکمران بھی بک سٹورزمیں اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرتے نظر آتے تھے۔ جس کو من چاہی کتاب مل جاتی اس کی عید ہوجاتی۔ وہ گھر جانے کا انتظار بھی نہ کرتا ۔وہ قریب ایرانی ہوٹل میں بیٹھ کر چائے کا آرڈر دے کر کتاب پڑھنے بیٹھ جاتا۔یہ شہر کتنا خاموش تھا۔ یہ شہر کتنا خوبصورت تھا۔ اس شہر میں نفرت اور تعصب کا طوفان کس طرف سے آیا؟ وہ طوفان اس قدر شدید تھا کہ اس طوفان میں ہر چیز اڑ گئی۔ سب سے پہلے تو اعتبار اٹھ گیا۔ اس کے بعد تحفظ تباہ ہوگیا۔ یہ شہر جس کے پانی میں فطرت کی خوشبو تھی اس شہر کی چشموں میں کس نے بارود ملایا؟ اس شہر کو اپنے چاہنے والوں سے جدا کرنے کی سازش کس نے کی؟ کس کوئٹہ میں پیدا ہونے والے یا کوئٹہ میں بڑے ہونے والے بچوں کو اس شہر سے جلاوطن ہونے پر کس نے مجبور کیا؟ آج اس شہر میں وہ لوگ نہیں ہیں؛ جن لوگوں کی وجہ سے یہ شہر مہکتا تھا۔ جن لوگوں کی وجہ سے یہ شہر چہکتا تھا وہ لوگ شہر بدر کیوں ہوئے؟ کیا پنجابی اور سرائیکی بولنا سزائے موت جیسا جرم ہے؟ آخر مسافروں کو بسوں سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر اور ان سے بات کرکے ان کا لہجہ سن کر انہیں قطار میں کھڑا کرکے گولیوں سے کیوں بھونا گیا؟ کیا ملا موت کے سوداگروں کو؟ اس شہر سے اگر پاکستان کے باقی صوبوں کے لوگ چلے گئے تو کیا یہ شہر ترقی کرگیا؟ اس شہر کو ترقی سے ہم آغوش کرنے والے گئے تو ان کی جگہ دہشتگردی نے لی۔ اب تو اس شہر میں بدامنی کی بہتات اور صاف پانی کی شدید کمی ہے۔وہ چشمے اور وہ جھیلیںسوکھ گئی ہیں جن کے کناروں پر بیٹھ کر مسافروں کی ساری تھکاوٹ اتر جاتی تھی ۔ ان کے پانی سے پورا شہر اپنی پیاس بجھاتاتھا۔ مگر وہ دن ہوا ہوئے۔ اب کوئٹہ میں ہر چیز ٹوٹ کر بکھر چکی ہے۔ اب بازاروں میں دکاندار بوریت کی وجہ سے جمائیاں لیتے نظر آتے ہیں۔ ہر چیز بجھ گئی ہے۔ شہر میں اجنبی لوگوں کے ہجوم نظر آتے ہے۔ اچھائی اور سچائی نہ معلوم کہاں چلی گئی ہے؟ اس شہر میں اب ٹریفک کا بے ہنگم شور اور قدم قدم پر پولیس چوکیوں کے جال مگر اس کے باوجود ہر شخص کو جان کا خطرہ لاحق ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو اس طرح دیکھتے نظر آئے جس طرح کوئی انجان خطرے کو دیکھتا ہے۔ کتنے دھماکے ہوئے اس شہر میں؟ اس شہر میں کتنے معصوم لوگوں کا لہو بہا؟ یہ شہر ایک منظم سازش سے تباہ ہوا۔ یہ شہر رقبے کے حوالے سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا دارالحکومت ہے مگر اب کوئی اس شہر کو دیکھے اور بتائے کہ کیا کسی صوبے کا دارالحکومت ایسا ہونا چاہئیے؟کیا ملا بلوچ قوم پرستوں کو؟ وہ جس طرح پاکستان دشمن ہاتھوں میں کھیلے اس کے نتیجے میں انہیں کیا حاصل ہوا؟ اب تو وہ کوئٹہ شہر میں بھی کم نظر آتے ہیں۔ ان سے اپنے صوبے کا سب سے بڑا شہر مارکیٹ سمیت چھن گیا۔ کیا ان کے اطمینان کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے نام سے سردار لفظ کو جوڑتے ہیں ۔ کیا بلوچستان میں سرداروں کی کمی ہے؟ بلوچ قوم پرستوں نے اپنے صوبے کے ساتھ ساتھ اس شہر کے ساتھ بہت زیادتی کی جو شہر کبھی پورے پاکستان کے عوام کا گلدستہ تھا۔ آج اس میں کوئی پھول نہیں۔ اس بار کوئٹہ کی سڑکوں پر چلتے ہوئے وہ شہر بڑی شدت کے ساتھ یاد آیا جو ہم سے دشمنوں نے چھین لیا۔ ہم تو اپنے شہر کی حفاظت بھی نہ کرپائے۔ افسوس صرف یہ نہیں کہ بہت زیادہ زیاں ہوا۔ اصل افسوس یہ ہے کہ بقول اقبال ہم احساس زیاں کو بھی کھو چکے ہیں۔کتنی ادبی محفلیں ہوتی تھیں اس شہر میں وہ شہر جس میں بڑے شعراء کے آگے شمع رکھی جاتی تھی تو ماحول میں ذوق کی خوشبو بکھر جاتی تھی۔ اب اس شہر میں صرف خوف اور ہراس کے سائے لہراتے ہیں۔ اس شہر میں شام کی چائے پیتے ہوئے فیض احمد فیض کے یہ اشعار شدت کے ساتھ یاد آئے ؎ گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا شام کی چائے پیتے ہوئے میں تو یہ سوچ رہا تھا۔ مگر کوئٹہ کیا سوچ رہا تھا؟ یہ سوال میں آپ سب کے سامنے رکھتا ہوں۔ ٭٭٭٭٭