ہم اس عمر کو آ پہنچے ہیں کہ ہر شہر میں چند دوست ہیں، جب بھی کسی شہر کے حوالے سے کوئی بری خبر ٹی وی اسکرین پر لہراتی ہے، تو اس شہر میں ان دوستوں کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ جب میں نے کوئٹہ کے مشہور ہوٹل سیرینا کے بارے میں سنا ،کہ وہاں دہشت گردی کی واردات ہوئی ہے ،تو مجھے فوری طور پر ہوٹل کے مینیجر اور اپنے دوستوںکی فکر لاحق ہوگئی۔ دوستوں کی خیریت معلوم کرنے کے بعد دل اچانک کسی انجانے احساس کے وزن تلے دب گیا اور میں سوچنے لگا کہ جو لوگ اس حادثے کا شکار ہوئے ہیں یا جو لوگ کوئٹہ یا پورے بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں غیرفطری موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، ان کے بھی دوست ہوتے ہیں ۔ ان دوستوں کے دل میں کتنا درد بھر جاتا ہوگا،خاص طور پر ان خاندانوں کو دکھ کے جس دریا کو عبور کرنا ہوتا ہے، اس کی حقیقت تو وہ ہی جاتے ہیں۔ ہم تو ان کے غم کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ جن کے پیارے بچھڑ جاتے ہیں،ان کو معلوم ہوتا ہے کہ جدائی کیا ہوتی ہے؟ ہم تو بس یہ پڑھ اور سن لیتے ہیں کہ گذشتہ برس دہشت گردی کی وجہ سے اتنے افراد دنیا سے چلے گئے۔ جبکہ ایک ایک فرد ایک ایک گھر ہوتا ہے۔ ایک خاندان ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے فرمایا کہ : ’’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘ اس لیے مجھے لکھنے دیجئے کہ ایک فرد ایک قوم بھی ہوتا ہے۔ وہ سارے افراد جو پاکستان میں پیدا ہوئے اور انہیں بے گناہ قتل کیا گیا۔وہ دکھ کی گھڑی بہت سخت ہوتی ہے جب کسی خاندان کی قسمت کا تارہ بجھ کر راکھ ہوجائے۔ ہمارے ملک میں دہشت گردی نے کتنے گھروں کو اجاڑا ہے اور کتنے معصوم دل دکھ سے بھر دیے ہیں؟ اس کے بارے میں ہم صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں ۔ جب کہ اس بارے میں اندازہ لگانا بھی کس قدر تکلیف دہ ہے۔ ہم انجان انسانوں کے دکھ پر اتنے اداس ہوسکتے ہیں تو ان لوگوں پر کیا بیتی ہوگی جن کی زندگی میں بچھڑ جانے والوں کے سلسلے میں بہت ساری یادیں تھیں۔ اتنی یادیں کہ ان کو مکمل بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ ہم اس شہر کی بات کر رہے تھے، جس شہر کی بانہیں لاش اٹھا اٹھاکر تھک چکی ہیں۔ ہم کوئٹہ کی بات کرے رہے ہیں۔ کوئٹہ کے امن کو کس کی نظر لگ گئی؟ کوئٹہ کتنا پرامن شہرہوا کرتا تھا۔ اس شہر کی سڑکوں پر چلنے میں کتنا مزہ آتا تھا۔ اگر کوئی جلدی کام نہ ہو، تو اندرون کوئٹہ گاڑی میں سفر کرنا کس کو پسند ہوتا تھا۔ یہ شہر تو پہاڑوں کے درمیان ایک پیالے کی طرح ہے اور سردیوں کے موسم میں جس طرح قہوے کے پیالے سے مہکتا ہوئی بھاپ نکلتی ہے؛ ایسا خوشبو بھرا احساس ہوا کرتا تھا، اس شہر میں جس میں اب بارود کی بو اس قدر بھر گئی ہے کہ سانس لینے میں بھی تکلیف ہوتی ہے۔ لوگ اپنے شہروں سے فطری طور پر محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت ان کو ورثے میں ملتی ہے مگر ہم تو کوئٹہ سے بے لوث محبت کرنے والے ہیں۔ اس کی حسن اور اس کی بلندی تو دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ہونے والے ہم مسافر اب کوئٹہ میں کسی کام کے لیے ٹہرتے ہیں تو ہوٹل سے باہر نکلنے کو دل نہیں کرتا۔ بات صرف خدشات کی نہیں ہے۔ بات اس خوشی کی بھی ہے جو خوشی دھماکوں اور بدامنی کی وجہ سے کوئٹہ کی فضاؤں سے اڑ چکی ہے۔ اب کوئٹہ ایک اداس اور خالی آشیانہ ہے۔ اب کوئٹہ میں وہ سکون کہاں جو کبھی اس شہر کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ کوئٹہ سے محبت کرنے والے لوگ اب اس طرح محسوس کرتے ہونگے جس طرح ابن انشاء اپنی مشہور غزل تخلیق کرتے وقت محسوس کرتا ہوگا: ’’جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کریں دیوانوں سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا‘‘ کوئٹہ تو پہاڑی شہر ہے اور اس کے پہاڑ بھی بہت سخت ہیں مگر پھر بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس شہر کو کسی نے اندر سے توڑ دیا ہے۔ اب یہ شہر ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ مسکراتا ہے اور مہمان نوازی کرتا ہے۔ اس شہر کو اپنے پیاروں کے بچھڑ جانے کا غم اندر ہی اندر سے چاٹ رہا ہے۔ حکومت کو اس شہر کی مسیحائی کرنا ہوگی۔ اگر حکومت نے اس شہر کی مسیحائی نہیں کی تو اور کون کرے گا؟ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کوئٹہ کا درد کتنا گہرا اور اس کے خلاف کتنی سازشیں متحرک ہیں؟ کوئٹہ کے مشہور ہوٹل سیرینا میں جس دن دھماکہ ہوا تھا اس دن چین کے سفیر شہر میں موجود تھے۔ دھماکہ کرنے والے بارود کی گونج چینی سفیر کے سماعت تک پہچانا چاہتے تھے اور وہ میڈیا میں یہ خبر لگونا چاہتے تھے کہ چینی سفیر کی موجودگی کے دوراں کوئٹہ میں خطرناک دھماکہ۔ ایک خبر کے لیے اتنے انسانوں کا خون بہانا کس قدر وحشی عمل ہے؟جس قوت نے کوئٹہ کو بدامنی سے جوڑ کر رکھا ہے وہ قوت وحشی ہے۔ اس قوت کے نظر میں انسان اور انسانیت کی کوئی اہمیت نہیں۔ کیوں کہ کوئٹہ کے بارے میں پاکستان میں سیاحت سے دلچسبی رکھنے والے لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کوئٹہ ایک کیفیت جیسا شہر تھا۔ ایک ایسا شہر جس کی فضائیں مہکتی تھیں۔ جس کی ہواؤں میں امن کی خوشبوتھی۔ اس امن اور پیار کی خوشبو میں تیزاب کی بدبو کس نے ملائی؟ کس نے کوئٹہ کو ایک چیخ میں تبدیل کرنے کے لیے لاشے گرائے؟ کس نے کوئٹہ سے اس کی اصل معنی چھین کر اس کو دہشت کی علامت میں تبدیل کیا۔ ایک پرکشش اور خوبصورت شہر کے ساتھ ایسا حشر کرنے والے بلوچستان کے دوست نہیں ہو سکتے ۔ وہ کیسے بھی دعوے کریں مگر کوئی اپنا اپنے شہر کے ساتھ ایسا نہیں کرتا جیسا کوئٹہ کے ساتھ ہوا ہے۔ کوئٹہ اس وقت درد کی علامت بنا ہوا ہے۔ کوئٹہ پر خوف کی چادر تنی ہوئی ہے۔ کوئٹہ میں ہر قدم پر ایک خدشہ آپ سے آپ کی خوشی چھیننے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئٹہ کو بھیانک خوف کی علامت بنانے والے بلوچستان کے دوست ہرگز نہیں ہو سکتے ۔ کیوں کہ دوست کبھی ایسا نہیں کرتا۔دوست دل جوئی کرتے ہیں۔ دوست خوشیاں دیتے ہیں۔ دوست دہشت زدہ نہیں کرتے ۔ دوست خوف کا سایہ نہیں بنتے۔ دوست تو سہارا دیتے ہیں۔ ہم اس وقت چین کی بات نہیں کر رہے۔ چین کے اپنے مفادات ہیں۔ ہم بھارت کی بات بھی نہیں کر رہے۔ حالانکہ بلوچستان میں دہشتگردی کا بارودی جال بچھانے کا کام بھارت نے کیا ہے۔ ہم کسی ملک کی بات نہیں کرتے۔ ہم صرف کوئٹہ کی بات کرتے ہیں۔ ہم اس خوبصورت شہر کی بات کرتے ہیں جس شہر کو بلوچستان کے نام نہاد اور نادان دوست تباہ اور برباد کرنے کے درپے ہیں۔ انہوں نے اب تک کوئٹہ میں کس قدر خون بہایا ہے اور ان کی وجہ سے کتنے دہشتگردوں کو بلوچستان میں داخل ہوکر کوئٹہ کو نشانہ بنانے کا موقع ملا ہے۔ بلوچستان بہت دکھی ہے اور کوئٹہ تو درد میں ڈوبا ہوا ہے۔ آئیں اس شہر کا سہارا بنیں اور کوشش کریں یہ روتا اور آنسو بہاتا ہوا شہر پھر سے مسکرائے۔