اسی طرح 1995ء میں جنوبی کشمیر میں مغربی ممالک کے پانچ سیاحوں کو جب ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے اغوا کیا، تو بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو ان کے ٹھکانوں کے بارے میں پوری معلومات تھی۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے طیارے مسلسل ان کی تصویریں لے رہے تھے۔ مگر ان کو ہدایت تھی، کہ سیاحوں کو چھڑانے کا کوئی آپریشن نہ کیا جائے، بلکہ اس کو طول دیا جائے۔ بعد میں ان سیاحوں کو بھارتی آرمی کی راشٹریہ رائفلز نے اپنی تحویل میں لے لیا۔مگر بازیابی کا اعلان کرنے کے بجائے ان کو موت کی نیند سلادیاگیا۔ مقصد تھا کہ مغربی ممالک تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی سے منسلک کرکے اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچیں اور جتنی دیر سیاح مبینہ عسکریت پسندوں کے قبضہ میں رہیں گے، پاکستانی مندوبین کیلئے مغربی ممالک میں جواب دینا اتنا ہی مشکل ہو جائیگا۔اس واقعہ کے ایک سال قبل ہی مغربی ممالک انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے تھے۔یہ واقعہ کشمیر کی جدوجہد میں ایک تاریخی موڑ ثابت ہوا۔ دسمبر 1999ء میں انڈین ایئرلائنز کے طیارہ IC 814 کے اغوا کے معاملے میں خفیہ ایجنسی کے ایک افسر نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو دہشت گردوں کے مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے مسافروں سے بھرے طیارے کو اڑا دینے کا مشورہ دیا تھا تاکہ پاکستان کو مکمل طور پر بدنام کیا جائے۔ 2008 ء کے ممبئی حملوں سے قبل بھی بھارتی حکام کے پاس اس قدر خفیہ معلومات تھیں کہ ان سے دو ماہ قبل جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریقہ کار پر معلومات بھی درج تھیں۔ان اطلاعات کا ماخذ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے تھی۔ اسی طرح لشکر طیبہ کے مبینہ ٹریننگ کیمپ میں موجود آئی بی کے ایک مخبر کی طرف سے بھیجی گئی پل پل کی اطلاعات موجود تھیں، جن میںحملے کے لئے تاج ہوٹل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ستمبر 2008 ء میں اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکہ اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں کی ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران تاج ہوٹل سے حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوادی گئی۔ بتایا گیا حفاظتی اہلکاروں نے دوران ڈیوٹی کھانا مانگنا شروع کردیاتھا۔ اس حملہ کے ماسٹر مائنڈ ابو جندل کے بارے میں صوبہ مہاراشٹر میں ضلع بیہڑ کے رہنے والے بتاتے ہیں کہ وہ پولیس ہیڈکوارٹر میں بطورالیکٹریشن اورمقامی مخبرکام کرتا تھا۔انسداد دہشت گردی سیل کے سربراہ کے پی رگھونشی جب ایک بار بیہڑ کے دورے پر تھے، اسکو اپنے ساتھ لے گئے۔بتایا جاتا ہے کہ 2006ء میں اسی صوبے کے شہر اورنگ آباد میں اسلحے کے ایک بڑے ذخیرے کو پکڑوانے میں انصاری نے کلیدی کردار ادا کیا تھا،جس کے بعد وہ لاپتہ ہوگیا۔2008 میںجن سم کارڈ نمبروں سے وہ تاج ہوٹل میں موجود حملہ آوروں سے گفتگو کررہا تھا یا ان کو ہدایت دے رہا تھا ، بعد میں تفتیش میں معلوم ہوا کہ وہ جموں و کشمیر پولیس کی خفیہ ونگ نے خریدے تھے۔ یہ سم کیسے حملہ آورں کے پاس پہنچی تھی ہنوز معمہ ہے۔ ممبئی حملوں کی خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارت کی سکیورٹی انتظامیہ کی لاپروائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نیشنل سکیورٹی گارڈز (این ایس جی) نے دہلی سے متصل ہریانہ میں اپنے ہیڈکوارٹرسے حملوں کے بیس منٹ بعد ہی نقل و حرکت شروع کی تو کابینہ سیکرٹری اور بعد میں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سیکرٹری نے فون کرکے انہیںمتنبہ کیا کہ وہ احکامات کے بغیرنقل و حرکت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس تنبیہ کے ستر منٹ بعد وزارت داخلہ نے انہیں بتایا کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے این ایس جی کی مدد مانگی ہے اس لئے وہ فوراً ممبئی روانہ ہوجائیں مگر ائیر پورٹ جاکر معلوم ہوا کہ بھارتی فضائیہ کا ٹرانسپورٹ طیارہ ابھی کئی سو کلومیٹر دور چندی گڑھ میں ہے۔ کمانڈو یونٹ کے سربراہ جیوتی دتہ نے را ء سے ان کا خصوصی طیارہ مانگا تو پتہ چلا کہ اس کا عملہ غائب ہے اور جہاز میں ایندھن بھی نہیں ہے۔آدھی رات کے بعد جب دستہ طیارے میں سوار ہوا توان کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے چند افسر بھی ان کے ہمراہ جارہے ہیں اس لیے ان کا انتظار کیا جائے۔ بالآخر جب طیارہ اگلے دن صبح ممبئی پہنچا تو افسرکو لینے کے لئے چمچاتی اور لال بتی والی گاڑیاں موجود تھیں مگر کمانڈو دستوں کو لے جانے کے لئے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ ان واقعات کو بھارت نے عالمی فورمز پر پاکستان کو کٹہرے میں کھڑ ا کرنے کیلئے بھر پور استعمال کیا ۔نہ صرف ایف اے ٹی ایف ، بلکہ کئی اور تلواریں بھی کامیابی کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کے سروں پر لٹکا کر رکھیں ۔ اکثر اوقات پاکستانی حکمران اور اسکا میڈیا بھی پروپگنڈہ کا شکار ہو کر بجائے سوالات کرنے کے ، خود ہی اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہرانے لگتے ہیں، جس سے عالمی فورمز میں بھارت کا موقف مزید مضبوط ہوتا گیا۔ وقت آگیا ہے کہ پلوامہ، پارلیمنٹ ، ممبئی اور اکثر دھام حملوں کی طرف توجہ مبذول کرکے ان کی غیر جانبدارانہ تفتیش کا مطالبہ کیا جائے اور معلوم کیا جائے کہ اتنی معلومات ہوتے ہوئے بھی پیش بندی کیوں نہیں کی گئی۔ آخر معصوم افراد کو دہشت گردی کی خوراک کس نے بننے دیا اور اس سے کیا سیاسی فوائد حاصل کئے گئے؟ لاشوں کے سوداگروں کے نقاب اتارکر انکو کیفر کردار تک پہنچانے کا وقت بھی آگیا ہے۔ (ختم شد)