حکومت نے سانحہ ساہیوال کو ہینڈل کرنے کے لئے جو حکمت عملی اپنائی وہ اس حکمت عملی سے قطعاً مختلف نہ تھی جو اس قسم کے واقعات پر ہماری ماضی کی حکومتیں اپناتی رہی ہیں۔ عوام کا غم و غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے وہی پولیس اصلاحات کے وعدے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا دعویٰ۔ یہاں تک کہ اسی طرح کا کوئی اور دل خراش واقعہ میڈیا کی توجہ کا مرکز نہ بن جائے۔ بدقسمتی سے ہم پاکستانیوں کا اجتماعی ضمیر جھنجھلا کر صرف اس صورت میں بیدار ہوتا ہے جب کوئی انسانی المیہ سر اٹھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہمارے سکیورٹی اور لاء انفورسمنٹ کے ادارے اس قسم کے سانحات کے بعد معاملات کو دبانے کے فن میں طاق ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے بھی ہمارے اداروں کو ہر قسم کی کوتاہیوں اور نااہلیوں کو چھپانے کا جواز فراہم کیا ہے۔ ہمارے ادارے یہ ہنر بھی سیکھ چکے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کے بعد کس طرح اپنے خلاف ہونے والی تنقید کو ہمدردی میں بدلنا ہے اور ایک نئے بیانئے کی تشکیل کے لئے راہ ہموار کرنی ہے جس کے تحت انہیں مزید وسائل فراہم ہو سکیں جس کے ملنے پر یہ ادارے خود کو مزید محفوظ اور ناقابل گرفت بنا لیں۔ ہماری سول انتظامیہ سکیورٹی اداروں یہاں تک کہ عدلیہ بھی یہ ہمت نہیں جتا پا رہی کہ گزشتہ چند برسوں میں ہونے والے پولیس مقابلوں کا آڈٹ کروانے کا ہی حکم جاری کر دے۔ اگر ایسا ہو جائے تو سانحات کا ایک سیلاب اُمڈ آئے گا جس کے مقابلے کا ہمارا نظام متحمل نہیں ہو سکا۔ ایک میڈیا رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق جنوری 2014ء سے مئی 2018ء تک پولیس مقابلوں میں 3345افراد کو ہلاک کیا گیا جن میں 23خواتین اور 12بچے بھی شامل تھے۔ دوسری طرف اس قسم کے سانحات کے بعد ہمارا قومی ردعمل بھی عدم تسلسل کا شکار رہا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہجوم کی طرف سے لوگوں کا قتل معمول ہو۔ جذباتی اشتعال عام ہو‘ بے گناہوں کو پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے کے غیر قانونی اقدام کے لئے کریمنل سسٹم کی پیچیدگیوں کا جواز تراشنا فیشن ہو۔ اسی قسم کے معاشروں سے اس قسم کے رویے کی توقع ہی کی جا سکتی ہے۔ کسی معاشرہ کے اجتماعی جذبات کا اظہار ہی اس معاشرے کی اجتماعی نفسیات کو سمجھنے کا پیمانہ ہوا کرتا ہے جبکہ معاشرے کے خوشی اور غم کے اظہار سے ہی اس معاشرے کی کمزوریوں اور قوت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اسی قسم کے رویوں سے کئی معاشروں کے سنگین حالات میں بیلنس آف پاور کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان دو پہلوئوں سے ہم ملکی سکیورٹی کے ڈھانچے اور جس ذہن کے ساتھ یہ ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے‘ کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو قانون کی عملداری کے لئے جو بنیادی ڈھانچہ وراثت میں ملا ہے گزشتہ چند برسوں سے تو یہی ثابت ہو رہا ہے کہ حالات کی پیچیدگیوں اور چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث یہ مسلسل ناکام ہو رہا ہے اور ریاست اس انتظامی ڈھانچے میں اصلاحات لانے میں بھی بری طرح ناکام ہے۔ حکومت اور ریاستی ادارے معاملات کے حل کے لئے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی پالیسی اپنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اداروں میں اصلاحات کے بجائے ان کے متوازی نئے ادارے بنانے کا رجحان فروغ پا چکا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے تمام صوبوں میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے متوازی فورسز بنائی گئی ہیں۔ پنجاب میں دہشت گردی کے مقابلے کے لئے 1997ء میں ایلیٹ فورس قائم کی گئی مگر پنجاب حکومت نے 2014ء میں اسی مقصد کے لئے ایک اور فورس کھڑی کر دی۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ ایسا نئی نوکریاں پیدا کرنے کے لئے کیا گیا جس سے نہ صرف خامیاں مزید ابھر کر سامنے آئیں بلکہ اختیارات اور باہمی تعاون کے نئے مسائل نے بھی جنم لیا۔ یہی ساہیوال کے واقعے کا المیہ بھی بنا۔ جہاں اداروں میں کوآرڈی نیشن کاہی فقدان نہ تھا بلکہ اختیارات کے استعمال کے ابہام نے بھی اس قسم کے سانحے کو جنم دیا جس سے آسانی سے بچا جا سکتا تھا۔ ایک طرح سے اس قسم کی مبہم صورت حال کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کو سوٹ بھی کرتی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہی تو وہ لامحدود اختیارات اور غیر پسندیدہ صورتحال میں سزا سے استثنیٰ انجوائے کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ خامیاں سکیورٹی اداروں میں دہشت گردی کے خطرات میں بھی اضافہ کر رہی ہیں کیونکہ موجودہ چیلنجنگ صورتحال میں مشترکہ اقدامات اور انٹیلی جنس شیئرنگ ناگزیر ہے۔ پاکستان کا سکیورٹی نظام ریاست کی رٹ بحال کرنے کے نظریہ پر استوار کیا گیا ہے۔ اس لئے ہمارے اداروں کے لئے مشکل ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کے نظام سے بھی خود کو ہم آہنگ کریں۔ بظاہر ہم رٹ آف دی سٹیٹ اور قانون کی حکمرانی کو ایک ہی معنوں میں لیتے ہیں۔ مگر جب ان پر عملدرآمد کا وقت آتا ہے تو یہ ایک دوسرے کے مد مقابل آ جاتے ہیں۔ ریاست کی رٹ کے نظریہ کی بنیاد اختیار کے تصور پر رکھی گئی ہے جبکہ قانون کی حکمرانی اختیارات کے ذمہ دارانہ استعمال اور احتساب کی بھی متقاضی ہوتی ہے۔ ریاستی سکیورٹی اداروں کے لیے قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصولوں کی پیروی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جس میں فریقین پر قانون کا یکساں نفاذ ہوتا ہے۔ قانون کی حکمرانی میں حکومت قانون کی پابند ہوتی ہے اور قانون سب کے لئے برابر اور مجرم کو فیئر ٹرائل کا موقع دیتا ہے جبکہ سکیورٹی ادارے کے فرائض کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ان کے اہلکاروں کو مکمل استثنیٰ حاصل ہو اور ہمارا نظام بحیثیت مجموعی اسی نظریہ کی تائید بھی کرتا ہے۔ نہ صرف ہمارا نظام بلکہ ہماری سوسائٹی بھی قانون کو بالائے طاق رکھ کر انتہائی سزا کے حق میںہے ۔ اس کی ایک مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ ہمارے ہاں لوگ ایسی فلموں میں مناظر دیکھ کر تالیاں پیٹتے ہیں جن میں ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلوں میں مجرموں کو قتل کیا جاتا ہے جو کہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوتا ہے۔ ہمارے سکیورٹی اہلکار بھی قانون کی سرخ لکیر اس لئے پھلانگ جاتے ہیں کیونکہ ریاست اور معاشرہ نہ صرف اس کی تائید کرتے ہیں بلکہ اس قسم کے غیر قانونی اقدامات کی پذیرائی انعامات‘ نوازشات اور ترقیوں کی صورت میں بھی کی جاتی ہے۔ ہم نے پولیس اور دیگر اداروں میں ترقی پانے کے لئے غیر قانونی اقدام کو معیار بنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پولیس آفیسر میڈیا میں آ کر جعلی پولیس مقابلوں کا اعتراف کرتے ہیں ریاست بھی ان کو ایسا کرنے سے نہیں روکتی کیونکہ یہ مقابلے ریاستی ایما پر ہوتے ہیں۔ اب آپ کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ہو گئی کہ ہماری عدلیہ پر بوجھ کیوں بڑھ رہا ہے۔کیونکہ تاثر یہ پیدا کر دیا گیا ہے کہ سکیورٹی ادارے اپنا کام اخلاص اور دیانتداری سے کرتے ہیں گو ان کے اقدامات ماورائے آئین اور قانون ہوں اسی وجہ سے تو قانونی عمل پیچیدہ اور طویل ہو جاتا ہے۔ ریاستی اداروں کو اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ سانحہ ساہیوال کو عوام کے ذہنوں سے محو ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ لوگوں کے غم و غصہ کے رفو ہونے میں صرف کسی ایک دہشت گرد یا جنسی درندہ کے قاتل کے واقعہ کی ضرورت ہے۔ ہمارا قومی میڈیا بھی ان کائونٹر کے ماہروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ ریاستی سول اور سکیورٹی اداروں کو اگر کچھ فکر ہے تو یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات کے بعد عوامی ردعمل اس حد تک نہ بڑھ جائے کہ سیاسی یا سماجی تحریک کی شکل اختیار کرلے۔ اس قسم کی تحریک کی مثال پی ٹی ایم کی دی جا سکتی ہے۔ ریاستی ادارے اس قسم کی تحریکوں کو اپنے مکمل استثنیٰ کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے حالات کو اندرونی اور بیرونی ملک دشمن قوتیں ہوا دیتی ہیں اس قسم کے حالات ہی کی وجہ سے رائو انوار جیسے ان کائونٹر سپیشلسٹ عوامی بیانیہ کا حصہ بنے ہیں جس کے ردعمل میں دائیں بازو کی تحریکیں جنم لیتی ہیں اور احتساب کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔بدقسمتی سے اداروں کے افعال کی درستگی اورقانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے بجائے مسلسل ان کے تحفظات کو تقویت اوران کے اقدامات کی ریاست کی رٹ کی آڑ میں پذیرائی کی جا رہی ہے۔