ابن ِانشا مرحوم کمال کے ادیب تھے۔ اردو مزاح نگاری میں ان کا مقام، مائونٹ ایورسٹ کے برابر ہے! یاروں نے پھکڑ بازی اور لطیفہ گوئی کو مزاح نگاری کا مرادف ٹھہرا لیا ہے۔ لیکن ابن ِانشا کا میدان ہی دوسرا تھا۔ ان کی تحریروں پر "سادہ و پْرکار" کا تبصرہ، غالبا مشتاق احمد یوسفی مرحوم کا ہے۔ اور حق ہے کہ "سادگی و پْرکاری" کی اصطلاح، ابن ِانشا پر چْست بیٹھتی ہے۔ بظاہر بڑے بھولپن کے ساتھ، وہ مزاح کی میٹھی چھْری، ایسے چلاتے تھے کہ "حلال" ہونے والا بھی، کیا عجب جو پکار اٹھتا ہو کہ ع یہ نصیب، اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے بات سے بات پیدا کرنا، بلکہ اکثر بے بات سے نکتے نکال لینا، ان پر ختم تھا۔ دماغ سے ایسی چیز اتارتے تھے کہ اَوروں کو صرف حسرت ہی رہتی ہو گی۔ مثلا ایک مضمون کا عنوان تھا "ایک سفرنامہ جو کہیں کا بھی نہیں"۔ یہ روداد تھی، غالبا کسی ایسے واقعے کی، جس میں زاد ِسفر باندھنے، ٹکٹ خریدنے اور جہاز میں سوار ہو کر، حفاظتی بند باندھ لینے تک کے، سارے مرحلے طے کر لیے گئے۔ مگر جہاز کو نہ اْڑنا تھا اور نہ اْڑا! اردو کو بہرحال ایک نادر تحریر ہاتھ آ گئی۔ یہ تو خیر "نیم سفرنامہ" تھا، ان کے دوسرے سفرناموں کا بھی، جواب نہیں۔ غالب کہتا ہے ع خوشا روانی ِعمری کہ در سفر گذرد ابن ِانشا بھی مدت ِمدید، زمین کا گز بنے رہے۔ وہ اگر آج زندہ ہوتے، اور ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کو دیکھ پاتے، تو کیا لکھتے؟ اس ملک کے بنانے والے، سارے کے سارے تارکین ِوطن کی اولاد میں سے تھے۔ دور کیوں جائیے، سابق صدر باراک اوباما کے والد، کینیا کے تارک ِوطن تھے۔ خود موجودہ صدر کی اہلیہ کو، صرف دس بارہ سال پہلے امریکن شہریت ملی ہے۔ اس کے باوجود، تارکین ِوطن ٹرمپ صاحب کو اتنے کھَلتے کیوں ہیں کہ وہ ان کی شہریت روکنے کے لیے، قانون سازی پر زور دے رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب، امریکہ کے انتخابی نظام سے نکلتا ہے۔ بلا ناغہ، ٹرمپ کوئی نہ کوئی ایسا بیان داغتے رہتے ہیں، جس کی تاویل محال ہوتی ہے۔ ان کی جماعت کا سارا دن، وضاحتیں کرتے اور صفائیاں پیش کرتے گزرتا ہے۔ بات ذرا ٹھنڈی پڑتی ہے کہ اگلی صبح امریکن صدر کو پھر حرارہ آ جاتا ہے۔ امریکن سیاست کا سارا توازن، یہ روزانہ بگاڑ دیتے ہیں اور اسی کی بدولت، ٹی وی چینلوںپر سارا وقت ایک گھونسا، ایک مْکا، ایک لات فاعلاتْن، فاعلاتْن، فاعلات کا تماشا لگا رہتا ہے۔ ٹرمپ کی مثال، نگار خانۂ چین میں، ارنے بھینسے کی سی ہے! لیکن حتمی تجزیہ باور کرا دیتا ہے کہ اس متعفن نظام میں سے، یہ نکل کر ہی رہنا تھا۔ سبحان اللہ! دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت، ڈھائی سو برس کی ریاضت کے بعد، منتخب کرتی ہے ڈونلڈ ٹرمپ کو! اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، ستر برس کے سفر کے بعد، انتخاب کرتی ہے نریندر مودی کا! اگر نظام صحیح ہیں، تو پھر اس میں سے مسلسل خیر کیوں نہیں برآمد ہوتا؟ ظرف میں سے نکلتا وہی ہے، جو اندر موجود ہو! بجا کہا شیخ سعدی نے کہ ع پرتو ِنیکاں نگیرد، ہر کہ بنیادش بداست ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش ِنظر، ان کا صرف انتخابی حلقہ رہتا ہے۔ یعنی وہ گروہ، صدارتی انتخاب میں جن کا کردار کلیدی تھا۔ یہ لوگ اب بھی تقریبا سارے کے سارے، ٹرمپ کے ساتھ ہیں۔ انہی کی شِہ پا کر، انہی سے داد پانے کے لیے، یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کی کہانی مختلف ہے، لیکن امریکن صدر، جسے دنیا کا طاقتور ترین انسان کہا جاتا ہے، اس کے انتخاب کا طریقہ، اس قدر غیرشفاف اور غیر منصفانہ ہے کہ اقتدار میں صدر کی چار سالہ بسر بْرد، ایک یرغمالی کی حیثیت میں ہوتی ہے۔ جہاں یہ "سیدھے راستے" سے ہٹا یا بدراہ ہوا، اس کی کور ایسے دبا دی جاتی ہے کہ بلبلا اٹھتا ہے۔ امریکن صدر کی اصلیت، تاش کے بادشاہ سے زیادہ نہیں ہے۔ یرغمال یہ ان کھرب پتی خاندانوں کے ہاتھ میں رہتے ہیں، جو انتخابات کے دوران، پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ یہ کام، فی سبیل اللہ تو کیا جاتا نہیں۔ وصولی، ظاہر ہے کہ کئی گنا فوائد کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری عشروں پہلے، جواں سال سیاستدانوں پر شروع کی جاتی ہے۔ ماہ بہ ماہ، ان کی فائلیں تیار ہوتی رہتی ہیں۔ ساری خوبیوں اور خامیوں کا دفتر، یعنی سارا کچا چٹھا، ان کے ہاں درج ہوتا رہتا ہے۔ نہ وہ اِن کا پول کھولتے ہیں، اور نہ اِنہی میں اتنا بوْتا ہے کہ یہ راز کھولیں! ٹرمپ چونکہ "روایتی" سیاستدان نہیں ہیں، نظام کی بڑی بڑی خرابیاں، ان کے ہاتھوں کھْل رہی ہیں۔ یہ حالانکہ، بالکل "مجازی" لباس میں وارد ہوئے ہیں، اس کے باوجود ان کے پوجنے والے، کم نہیں ہیں۔ مگر وہ سیاستدان، جن کا لباس یا بے لباسی ٹرمپ سے بھی بڑھ کر، محض اعتباری ہے، "نیک نام" بھی ہیں۔ امریکن محاورے میں، ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ ع صورت ِفانی سے آخر، کیوں نہ پہچانے گئے اور ع اندھیرا اگر گھپ بھی ہو تو کم از کم روشنی پر بھی، اثر انداز نہیں ہو سکتا!