کوالالمپور؍ پتراجایا (جاوید الرحمٰن؍ نیوز ایجنسیاں) پاکستان اور ملائیشیا نے تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے باقاعدگی کے ساتھ بات چیت کی ضرورت ، تمام سطح پر وفود کے تبادلوں اور دوروں پر اتفاق کیا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے دسمبر 2019ء میں ہونے والے کوالالمپور سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کر نے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ہمارے ایک دوست کو لگا کوالالمپور سمٹ امت کو تقسیم کرے گی، اب خدشات دور ہوگئے ، آئندہ شریک ہوں گا، کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کر نے پر مہاتیر محمد کے شکر گزار ہیں۔منگل کو وزیراعظم عمران خان نے اپنے ملائیشین ہم منصب مہاتیر محمد سے پتراجایا شہر میں ون آن ون ملاقات کی جس میں دو طرفہ تعلقات ، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی جارحیت سمیت خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ وزیراعظم عمران خان اور ملائیشین وزیراعظم کے درمیان وفود کی سطح پر مذاکرات بھی ہوئے جن میں تجارت ،سرمایہ کاری، صنعت، دفاع اور مختلف شعبوں پربات چیت کی گئی۔وفود کی سطح پر مذاکرات کے بعد پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے ، ملائیشیا میں مقیم پاکستانیوں کے حقوق کی حفاظت سمیت 3 معاہدے ہوئے ۔عمران خان اور مہاتیر محمد نے مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی۔عمران خان نے کہا میں بہت افسردہ تھا کہ دسمبر کے وسط میں کوالالمپور میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہ کرسکا، بدقسمتی سے پاکستان کے بہت قریبی کچھ دوستوں کو یہ محسوس ہوا کہ شاید یہ کانفرنس امہ کو تقسیم کردے گی، جو واضح طور پر ایک غلط فہمی تھی کیوں کہ کانفرنس کے انعقاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد امہ کی تقسیم نہیں تھا۔آئندہ برس کوالالمپور سربراہی اجلاس میں شرکت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا بالکل وہ (شرکت) کریں گے کیوں کہ اب یہ بات واضح ہے کہ کوالالمپور اجلاس نے امہ کو تقسیم نہیں کیا، اگر کوئی چیز امہ کو متحد کرتی ہے تو ضرور آنا پسند کروں گا۔آن لائن کے مطابق عمران خان نے کہا ہمارے ایک دوست ملک کو لگا کہ کوالالمپور سمٹ امت کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے جو کہ غلط تھا، اب دوست ممالک کے خدشات ختم ہوگئے ہیں اور پاکستان اپنے دیگر فریقین کے ساتھ ٹی وی چینل و دیگر منصوبوں پرمل کر کام کرے گا،میں اگلے سال کوالالمپورسمٹ میں ضرورشرکت کروں گا اور اس سے دیگرممالک کے ساتھ تعلقات متاثر نہیں ہوں گے ۔ملائیشین وزیراعظم نے کہا ہم نے اہم معاملات میں رکاوٹیں دور کر نے اور دونوں جانب سے اشیا میں عدم توازن کے مسئلے کو حل کرتے ہوئے تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے باقاعدگی کے ساتھ بات چیت کی ضرورت پر اتفاق کیا۔انہوں نے کہا مسلم امہ کو درپیش چیلنجز کے لئے دونوں ممالک مل کر کام کریں گے ۔پاکستان کے ملائیشیا سے مزید پام آئل کی خریداری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مہاتیر محمد نے بتایا کہ میرے خیال میں پاکستان ملائیشیا سے مزید پام آئل درآمد کرنے کے لئے تیار ہے ۔عمران خان نے کہا کہ یہ درست ہے ، خاص طور پر ہم نے دیکھا کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر کی حمایت کرنے پر ملائیشیا سے پام آئل درآمد نہ کرنے کی دھمکی دی ، (لہٰذا) پاکستان اس کی تلافی کی بھرپور کوشش کرے گا۔عمران خان نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرنے اور بھارتی افواج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کی جانے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے پر مہاتیر محمدکا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا بدقسمتی سے بھارت پر ایک انتہا پسند اور بنیاد پرست حکومت قابض ہوگئی جس نے کشمیری عوام کو ایک کھلی جیل میں قید کردیا۔علاوہ ازیں وزیراعظم نے ایڈوانس اسلامک انسٹی ٹیوٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا قانون کی حکمرانی ہمارے ملک کا ایک مسئلہ رہا ہے ، ہمارے ملک میں بااثر افراد، اجارہ دار گروپ، سیاسی مافیاز ہیں جو خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں اور اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھاتے ہیں اور غریب افراد کا استحصال کرتے رہے ہیں، ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا آج دنیا میں اسلامو فوبیا پایا جاتاہے ، اسلامو فوبیا کی ایک وجہ ایران میں انقلاب کے حوالے سے مغرب کی غلط فہمی تھی،ملعون سلمان رشدی کی کتاب نے مسلمانوں میں رد عمل پیدا کیا جسے مغرب سمجھ نہیں سکا، ملائیشیا کا معاشرہ تحمل اور برداشت کے اوصاف سے مالا مال ہے ، مذہب کو کبھی بھی کسی پر زبردستی مسلط نہیں کیا جاسکتا۔وزیر اعظم نے کہا چند جرائم پیشہ افراد نے نائن الیون حملے کرائے ، ان دہشت گرد حملوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لیکن مسلم قیادت مغربی دنیا کو اس موقع پر بھی سمجھا نہیں سکی۔ انہوں نے کہاسوشل میڈیا کی وجہ سے اطلاعات اور معلومات تک رسائی میں انقلاب آ چکا، انتہاپسند پراپیگنڈے کے ذریعے نوجوانو ں کو گمراہ اور ان کے ذہنوں کو خراب کرتے ہیں ،ہمیں اس کے مقابلے کے لئے حکمت عملی بنانا ہوگی۔ نجی ٹی وی کے مطابق عمران خان نے کہا بھارت تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور اگر بھارت فسطائیت اور انتہا پسند ہندوتوا کے راستے پر ہی گامزن رہا تو ہمیشہ کے لئے تقسیم ہو جائے گا اور اس کے ٹکڑے جائیں گے ۔ انہوں نے مستقبل میں بھارت سے بہتر تعلقات کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں جب کبھی بھی ایسی حکومت آتی ہے جو برصغیر میں غربت کے خاتمے اور خوشحالی پر یقین رکھتی ہو تو پاکستان انہیں دوستی کی پیشکش کرنے والا پہلا ملک ہوگا۔بعدازاں وزیر اعظم عمران خان دوروزہ دورہ کے بعد وطن واپس روانہ ہوگئے ، ملائشین وزیر خارجہ اور دفاع نے الوداع کیا۔