آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی صدارت میں کور کمانڈرز کانفرنس نے ریاست کی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاک فوج ملکی اداروں کی مدد کے لیے آئین اور قانون کے تحت تفویض تمام فرائض انجام دیتی رہے گی۔ آئی ایس پی آر کی جاری تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں ملکی دفاع، خطے کی سلامتی، مشرقی سرحد اور ایل او سی کی صورت حال، کشمیر کے معاملات اور جیوسٹریٹیجک حالات کا جائزہ لیا گیا۔ کور کمانڈرز کانفرنس ملکی سلامتی کے معاملات پر غور کرنے کا اعلیٰ ترین پیشہ وارانہ پلیٹ فارم ہے۔ کانفرنس میں جن امور پر بات کی جاتی ہے ان کی تمام جزئیات کو کھنگالا جاتا ہے، ہمارے ہاں موجودہ سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی بتاتی ہے کہ اس بار سول ملٹری تعلقات میں کوئی بگاڑ نہیں۔ قومی معاملات پر سیاسی و عسکری قیادت میں اتفاق کا نتیجہ ہے کہ داخلی اور خارجی مسائل کی شدت کم ہو رہی ہے۔ سول ملٹری تعلقات میں موجود توازن ہمیں ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف، کشمیر کے تنازع اور لائن آف کنٹرول کے معاملات میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ نریندر مودی کی شرپسند حکومت کے مقابل امن کی بات کرنے والا پاکستان اگر مضبوطی سے کھڑا نظر آتا ہے تو اس کا کریڈٹ وزیر اعظم اور آرمی چیف کو دیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف نے 2018ء میں اقتدار سنبھالا تو قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہو چکا تھا۔ سابق حکومتوں نے غیر ملکی قرضوں کو خسارے کے منصوبوں پر لگایا اور مزید ستم یہ کیا کہ ان منصوبوں کو ہر ماہ سبسڈی کی شکل میں سرکاری خزانے سے رقم دی جاتی۔ کئی ترقیاتی و مواصلاتی منصوبے عالمی مالیاتی اداروں کے پاس رہن رکھ دیئے گئے تھے۔ افرادی قوت کو انسانی سرمائے میں بدلنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ ملک بھر میں چار ہزار سے زائد صنعتی یونٹ بند پڑے تھے۔ صنعتی و زرعی پیداوار بڑھانے کی بجائے تمام تر انحصار کڑی شرائط پر حاصل قرضوں پر کیا۔ 95ارب ڈالر کے قرضوں کی قسط ساڑھے 9ارب ڈالر کے لگ بھگ اقتدار کے پہلے سال ہی ادا کرنا پڑی۔ جو دوست ممالک قرض یا ادھار تیل دینے کی حامی بھر رہے تھے ان کے کچھ دفاعی نوعیت کے مطالبات بھی تھے۔ سی پیک معاملہ تھا جس کی سکیورٹی اور مالیاتی پڑتال ضروری تھی۔ آرمی چیف نے خود کاروباری افراد سے کہا کہ وہ ملک میں میگا پراجیکٹس شروع کریں۔ روپے کی قدر میں 50فیصد کمی، بازار حصص میں گراوٹ، برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ معیشت کے لیے الارم تھے۔ معاشی حالت کی خرابی کے ذمہ دار اقتدار سے الگ ہوئے تو انہوں نے نئی حکومت کو اس معاملے کا ذمہ دار قرار دینا شروع کر دیا۔ اس ماحول میں سخت اصلاحات لانا مشکل کام تھا مگر ٹیکس اصلاحات لائی گئیں۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف نے بیرونی ممالک کے دوروں میں سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کیں۔ آج چودہ پندرہ ماہ کے بعد سرمایہ کاری میں 137فیصد اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ سابق حکومت کے ابتدائی چار برسوں کے دوران ملک کا کوئی وزیر خارجہ نہیں تھا۔ اس عرصے میں بھارت نے ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک سے تعلقات مضبوط کیے۔ افغانستان میں بھارتی خفیہ اداروں نے اڈے بنائے، بلوچستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک بچھایا۔ بھارت کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے مقابل پاکستان کی حکومت کے پاس کوئی مؤقف اور لائحہ عمل نہ تھا۔ قومی سلامتی کے حوالے سے گزشتہ ایک برس پر نظر ڈالیں تو پاکستان سفارتی سطح پر ایک طاقتور ریاست بن کر ابھرا ہے۔ پاکستان کا افغان امن عمل اور ایران سعودیہ کشیدگی میں کمی کے حوالے سے کردار دنیا سے ستائش پا رہا ہے۔ ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کا بلاک مضبوط ہو رہا ہے۔ ترکی اور ملائیشیا نے بھارت کی اربوں ڈالر کی تجارت اور معاہدے دائو پر لگا کر پاکستان کا کشمیر کے معاملے میں ساتھ دیا ہے۔ حال ہی میں ترک صدر کی ذاتی دلچسپی کے طفیل ترک رینٹل پاور کمپنی ’’کارکے‘‘ کی طرف سے جرمانے کی مد میں طلب کیے گئے 1.2 ارب ڈالر معاف ہونے کی اطلاعات ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں امت مسلمہ اور پاکستان کا مقدمہ جس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا وہ عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ یقینا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی محنت کو بھی کریڈٹ دیا جانا چاہئے تا ہم اصل بات یہ ہے کہ فوج اور حکومت کے درمیان خارجہ معاملات بارے کوئی ابہام اور سوچ کا فرق نہیں۔ یہ یگانگت پاکستان کے مؤقف کو متاثر کن بنا رہی ہے۔ پاکستان کا معاشی اور سیاسی استحکام دشمن قوتوں کے نشانے پر ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان عدم استحکام کا شکار ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں غیر ملکی سرمایہ کار بھاگ جائیں گے اور پاکستان اس حد تک کمزور ہو جائے گا کہ بھارت جیسا کوئی ملک آرام سے اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بن جائے۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں سلامتی کو لاحق جن خطرات پر غور کیا گیا یقینا معاشی اور سیاسی استحکام ان میں شامل ہیں۔ چند روز سے اسلام آباد میں جے یو آئی نے دھرنا دے رکھا ہے۔ وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال کشمیر کے متعلق پاکستان کی کوششوں پر پانی پھیر چکی ہے۔ یہ سلسلہ کچھ دن اور جاری رہا تو معاشی بحران بھی سر اٹھا سکتا ہے۔ ان حالات میں ملکی استحکام کے لیے اپنے عزم کی بات کر کے آرمی چیف نے واضح کر دیا ہے کہ فوج کو ملک کا استحکام عزیز ہے اور جو عناصر جمہوری طریقہ کار کی بجائے غیر جمہوری راستہ اپنائیں گے وہ قطعی ملک کے دوست نہیں ہو سکتے۔