چیف جسٹس گلزار احمدنے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ یہ کس قسم کی ایمرجنسی ہے کہ تمام ہسپتال بند ہیں۔ وزیراعظم کاکہنا ہے کہ کورونا کے خلاف لڑنے والے ہراول دستے ڈاکٹر اور طبی عملے کو حفاظتی سامان فراہم کرنا اولین ترجیح ہے۔ پاکستان میں مریضوں کی تعداد 4 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ حکومت نے اس وبا سے لڑنے کیلئے نہ صرف گزشتہ 2 ہفتوں سے ملک بھر میں جزوی لاک ڈائون کر رکھا ہے بلکہ معاون خصوصی برائے صحت سمیت تمام صوبوں کی انتظامیہ ہر روز حکومتی اقدامات اور انتظامات کے حوالے سے عوام کو آگاہ بھی کر رہے ہیں جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں 538 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ حکومتی اقدامات کا یہ عالم ہے کہ اب تک ڈاکٹرز سمیت طبی عملہ کے 4 افراد شہید ہو چکے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز کے مطابق حفاظتی کٹس نہ ہونے کے باعث متاثر ہونے والے ڈاکٹرز کی تعداد 10 سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو معزز چیف جسٹس کا یہ کہنا بجا محسوس ہوتا ہے کہ میٹنگز پر میٹنگز ہو رہی ہیں زمین پر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ بلاشبہ حکومت نے ملک بھر میں قرنطینہ سینٹرز بنانے کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر ٹیسٹ کٹس اور پی پی ای کٹس منگوائی ہیں۔ بہتر ہو گا حکومت درآمد کی گئی پی پی ای کٹس کی طبی عملہ کو فراہمی کے ساتھ علاج کے پروٹوکول پر عملدرآمد کو یقینی بنائے تاکہ اس موذی مریض کو روکنے کے ساتھ طبی عملہ کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔