چند دن پہلے ایک ویڈیو راولپنڈی کورٹ کی وائرل ہوئی جس نے پورے عدالتی سکیورٹی نظام کی قلعی کھول دی۔ ہوا یوں کہ خواجہ سرا احتجاج کر رہے ہیں اور ان کو روکنے والا کوئی بھی نہیں یہاں تک کہ ایک خواجہ سرا نے اپنے آپ کو کمرہ عدالت میں برہنہ کر کے انوکھا ریکارڈ قائم کردیا۔ بات یہاں تک ختم نہیں ہوئی۔ پچھلی ایک دہائی کے ریکارڈ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ آئے روز گروپس میں تصادم کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور ہمارا سکیورٹی نظام خواجہ سرا کی لڑائی کی طرح تماشائی بن جاتا ہے۔ عدالتی احاطوں میں رات کو پرائیویٹ بندے سوتے ہیں ،اسلحہ اندر لے کر جایا جاتا ہے‘ روکنے والا کوئی نہیں ہوتا ہے ۔ بخشی خانہ جہاں ملزموں کو ٹھہرایا جاتا ہے اس کے اندر بھی پسٹل کے ذریعے ملزم کو قتل کردیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ گاڑیوں کے داخلے پر کوئی قدغن نہیں ہے اور ان کو بغیر تلاشی کے اندر جانے دیا جاتا ہے۔ 2013ء کا واقعہ ہے جس میں سیشن کورٹ کے گیٹ پر ایک ملزم ایک جوڑے کو اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کردیتا ہے اور ڈیوٹی پر مامور پچاس فٹ دور کھڑا پولیس کانسٹیبل اپنی آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھتا ہے اور اسلحہ پاس ہوتے ہوئے بھی اس کا استعمال نہیں کرتا ،جب اس کو وکلا اور لوگ ملامت کرتے ہیں تو اس کے یہ الفاظ پورے سسٹم کے چہرہ سے نقاب اتار دیتے ہیں وہ کہتا ہے صاحب جی میں نے گولی چلائی اور ملزم کو لگ گئی تو شاباش کی بجائے میں انکوائریاں بھگتتا رہا ہوں گا کہ تم نے اس کو گولی کیوں ماری۔ یہی حال ہے سارے نظام کا۔ ہم ناسور کو اوپر اوپر سے کاٹ دیتے ہیں اس کی جڑیں ویسی رہتی ہیں۔ اگر تبدیلی لانی ہے تو بلا امتیاز کورٹس کی چیکنگ سخت سے سخت کی جائیں۔ (عقیل شریف سندھو ایڈووکیٹ ،لاہور)