وزیر اعظم عمران خان نے 1124میگاواٹ کے کوہالہ پاور پراجیکٹ کے سہ فریقی معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے کہا ہے کہ درآمدی ایندھن کے استعمال سے مہنگی بجلی بنانے کے علاوہ ماحول پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ انٹرنیشنل ہائیڈرو پاور ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی سے 60ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کی گنجائش ہے اور اس اعتبار سے پاکستان کا شمار دنیا میں پانی سے بجلی بنانے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے 2017ء تک پاکستان 6ہزار میگاواٹ ہائیڈرل بجلی بنا سکا جو پاکستان کی ضروریات کا محض 36فیصد ہے۔ ماضی کے حکمرانوں نے ذاتی مفادات کی وجہ سے ایندھن سے چلنے والے بجلی کے کارخانے لگانے کو ترجیح دی رہی سہی کسر متبادل ذرائع ونڈاور سولر پاور کے منصوبوں پر وسائل خرچ کر کے نکال دی گئی جس کی بدترین مثال 6ارب ڈالر کے درآمدی ایندھن سے کوئلے کے منصوبے اور 15ارب سے زائد کی لاگت سے مکمل ہونے والا قائداعظم سولر پارک ہے جو تمام تر کوششوں اور دعوئوں کے باوجود 100میگاواٹ بجلی بھی نیشنل گرڈ میں شامل نہ کر سکا اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر اعظم کا یہ کہنا بجا محسوس ہوتا ہے کہ مہنگے برآمد ایندھن سے منصوبے لگا کر پاکستان پر ظلم کیا گیا بہتر ہو گا حکومت آئی پی پیز سے مہنگی بجلی خریدنے سے گریز کرے اور پن بجلی گھروں کی تعمیر پر توجہ دے تاکہ بجلی کے بحران کے ساتھ زرعی ضروریات کے لئے وافر مقدار میں پانی بھی میسر آ سکے۔