میرے کالم کا موضوع وسیب کے مسائل کے حوالے سے ہے کہ کورونا عذاب کے بعد وسیب کے مسائل میں اضافہ ہو چکا ہے۔ دوسری طرف سانحہ کراچی نے پوری قوم کو نڈھال کرکے رکھ دیا ہے۔ عید کی خوشیاں غارت ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہم سب کی دعا ہے کہ اللہ پاک کورونا اور اس طرح کے حادثات سے محفوظ رکھے۔ وسیب کے مسائل کے حوالے سے عرض کروں گا کہ وسائل کی کمی نہیں ہے صرف توجہ کی ضرورت ہے۔ زراعت کی زرخیزی میں سرائیکی وسیب اپنی مثال آپ ہے ، اس وقت ملک کی مجموعی زرعی پیداوار کا 70فیصد یہی خطہ مہیا کر رہا ہے ، زرعی پیداوار میں کپاس سب سے اہم فصل ہے مگر اس علاقے میں انڈسٹری نہیں ، انڈسٹری نہ ہونے کے باعث اس علاقے میں بے روزگاری اور غربت عام ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ لاہور ،فیصل آباد ، گجرات ،سیالکوٹ اور گجرانوالہ کی طرح سرائیکی وسیب میں انڈسٹریل زون قائم کئے جائیں اور جس طرح اپر پنجاب کی شاہرات کو انڈسٹریل سٹیٹس کا درجہ دیا گیا ہے اسی طرح کا عمل سرائیکی وسیب میں بھی دہرایا جائے۔ انڈس ہائی وے پشاور سے کراچی جاتی ہے ، ڈیرہ اسماعیل خان، وہوا(تونسہ شریف) سے سرائیکی وسیب میں داخل ہوتی ہے ۔یہ ایک لمبی پٹی ہے جو سندھ و بلوچستان کے بارڈر کشمور تک جاتی ہے ، سینکڑوں کلو میٹر کے اس فاصلے تک ایک بھی انڈسٹری قائم نہیں کی گئی ، حالانکہ اس علاقے کے پہاڑوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر راجن پور وغیرہ میں سیمنٹ کے کارخانے اور کپاس کی بہترین پیداوار اور وافر افرادی قوت سے فائدہ اٹھا کر اس علاقے میں ’’ٹیکسٹائل ٹیکس فری زون‘‘ قائم کئے جا سکتے ہیں ۔ اس سے یہ علاقہ ترقی کرے گا اور یہاں سے غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ اس علاقے میںڈی جی خان سیمنٹ فیکٹری سرکاری سیکٹر میں بنی جسے میاں نوازشریف نے اونے پونے فروخت کر دیا، مزید ظلم یہ ہوا مقامی افراد کو جاب نہیں مل رہیں۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے بھی بند ہیں۔ عدلیہ فوج اور سول بیوروکریسی میں وسیب کا حصہ آٹے میں نمک برابر ہے۔ فارن سروسز کا حصول بھی محال ہے۔ سرائیکی علاقے میں تعلیمی سہولتوں کا بہت فقدان ہے ، اعلیٰ معیار کا یہاں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ، پورے وسیب میںایک کیڈٹ کالج نہیں ، عملی طور پر آج بھی ایک بھی انجینئرنگ یونیورسٹی نہیں ، ایک بھی میڈیکل کالج یونیورسٹی نہیں اور زرعی خطہ ہونے کے باوجود یہاں ایک بھی زرعی یونیورسٹی نہیں ۔ زرعی اور انجینئرنگ یونیورسٹی میاں نواز شریف کے نام پر 10سال پہلے ڈول ڈالاگیا مگر یہ یونیورسٹیاں فنکشنل نہیں ہوئیں۔مزید برآں سرائیکی وسیب کو لائیوسٹاک کا خطہ کہا جاتا ہے اس کے باوجود اس علاقے میں ناصرف یہ کہ ایک بھی وٹرنری کالج یا یونیورسٹی نہیں بلکہ یہاںحیوانات کے علاج کے لئے اعلیٰ معیار کا ایک بھی ہسپتال نہیں ۔ بہاولپور میں 10 سال پہلے لائیو سٹاک یونیورسٹی کا اعلان ہوا مگر ابھی تک یہ اعلان ہی ہے۔یہاں حیوانوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کیلئے بھی طبی سہولتوں کا فقدان ہے ۔ آبادی کی ضروریات سے کہیں کم تعداد میں ہسپتال اگر موجود ہیں بھی تو وہاں بھی ادویات اور عملے کی ہر وقت کمی رہتی ہے ۔ سرائیکی خطہ بنیادی طور پر دریائوں کی سر زمین ہے ، پاکستان کے تمام دریا یہاں آ کر ملتے ہیں اور اس علاقے کو سات دریائوں کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے ، اس کے باوجود پانی یہاں کا اہم مسئلہ ہے ، پانی نہ ملنے کے باعث چولستان اور تھل کے صحرا میں ہر سال ہزاروں ذی روح لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے اضلاع سمیت سرائیکی وسیب کے اکثر علاقوں میں پینے کا پانی میسر نہیں اور پانی کے ایک گھڑے کے حصول کیلئے ہماری خواتین کو میلوں کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے ۔ علاوہ ازیں ایک اہم بات جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے جن علاقوں کو پینے کیلئے پانی مہیا کیا جا رہا ہے وہ اس قدر ناقص اور مضر صحت ہو چکا ہے کہ گندا پانی پینے سے سرائیکی وسیب میں کالے یرقان نے وبائی شکل اختیار کر لی ہے ، اس وقت پورا سرائیکی وسیب ہیپاٹائٹس کی لپیٹ میں ہے ، خصوصی درخواست ہے کہ ہنگامی بنیادو ںپر کالے یرقان کے علاج معالجے کیلئے اقدامات کے ساتھ ساتھ مرض کے اصل محرکات کا خاتمہ کیا جائے اور لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے ، بات پانی کی ہو رہی ہے تو یہ بھی گزارش کرتا چلوں کہ ہر قابل کاشت رقبے کو بھی پانی مہیا کرنا حکومت کے فرائض میں شامل ہے مگر یہاں زیر کاشت رقبے کو پانی مہیا نہیں ہو رہا ، ٹیوب ویلوں کے ذریعے زمین کی زندگی نچوڑی جا رہی ہے ، زمینیں بنجر ہو کر صحرا میں تبدیل ہو رہی ہیں ، اس کربناک لمحے میں پانی کی فراہمی کیلئے خصوصی درخواست ہے۔ سابق گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ نے کہا تھا کہ موجودہ صوبہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ، اس کی آبادی پاکستان کے باقی تین صوبوں کی مجموعی آبادی سے بھی بڑھ کر ہے ، صوبے کے دور دراز علاقوں خصوصاً سرائیکی وسیب کے لوگوں کو مسائل کے حل کیلئے سخت مشکلات کا سامنا ہے ، سردست اگر نئے صوبوں کا قیام مکمل نہیں تو ہماری درخواست ہے کہ لاہور کے بعد ملتان کو پنجاب کا سیکنڈ دارالحکومت قرار دیا جائے ، دنیا میں سیزنل دارالحکومتوں کی مثال موجود ہیں اگر فوری طور پر ایسا بھی نہیں ہو سکتا تو کم از کم ملتان کو سب سیکرٹریٹ قرار دیکر یہاں کیلئے نائب وزیراعلیٰ یا پھر سینئر وزیر کا تقرر کیا جا سکتا ہے ، اگر اس طرح کا فوری اقدام نہ ہوا تو یہاں کے لوگوں کا احساس محرومی شدت احتیار کر سکتا ہے۔ سابق گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ کی تجویز پر سب سول سیکرٹریٹ کیلئے67رکنی کمیٹی بنی مگر کچھ نہ ہوا، ملک رفیق رجوانہ کی کوشیں اور وعدے نقش برآب ہوئے، عمران خان کے وعدے کا امتحان شروع ہے واضح ہو کہ وسیب کے لوگ صوبہ مانگ رہے ہیں یہ سب سول سیکرٹریٹ دینے کو تیار نہیں یہ کتنا بڑا ظلم ہے ، وسیب کے لوگوں کو خیرات نہیں صوبہ ملنا چاہئے یہ ان کا حق ہے۔