کورونا کی وبا ملک کے 20کروڑ عوام کے لئے تو ایک عذاب ہے ہی مگر پاکستان کی سیاست اور حکومت کے لئے کورونا کئی خطرناک اور جان لیوا زخموں کے لئے ایک مرہم کا کام بھی کر رہا ہے۔ بڑے بڑے ایسے مسئلے خودبخود حل ہوتے جا رہے ہیں جن کی کسی کو دو مہینے پہلے تک کوئی امید ہی نہیں تھی۔ مگر سب سے بڑا مسئلہ ملک کی سیاسی پارٹیوں اور حکومت سے باہر لیڈروں کے لئے کھڑا ہو گیا ہے۔ جو لیڈر کرپشن اور اپنی حکومتوں کی لوٹ مار میں پھنسے ہوئے ہیں وہ تو بھگت ہی رہے ہیں لیکن باقی سیاستدانوں کے پاس بھی اب کہنے اور کرنے کو کچھ نہیں رہا اور عمران خان کی قسمت اچھی ہے یا اچھی نیت کا انعام ہے کہ وہ ایسے فیصلے کر رہے ہیں جو ان کی سیاست کو ناقابل تسخیر بنا رہے ہیں۔ مخالفین میں ناامیدی کچھ اس طرح پھیل رہی ہے کہ لیڈری کے بڑے بڑے دعوے دار ایسی بے تکی باتیں کرنے لگے ہیں جو ان کے لئے زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں ایک اخباری کالم بعنوان شہباز شریف کہاں کھڑے ہیں؟ نظر سے گزرا۔ ظاہر ہے جس انداز سے یہ مضمون لکھا گیا ہے وہ اس نیت کے ساتھ لکھا گیا ہو گا کہ خود شہباز شریف کو اور ان کی سیاست کو فائدہ ہو گا ، ان کی پارٹی میں مایوسی کم ہو گی اور امید بڑھے گی لیکن لگتا ہے چھوٹے میاں صاحب نے یہ باتیں کہہ کر اور ایک ہمدرد اخبار میں چھپوا کر اپنے آپ کو اور اپنی سیاست کو گہرا گھائو لگا دیا ہے۔ کچھ باتیں جو انہوں نے قبول کی ہیں وہ ایک شکست خوردہ ذہن کا مالک ہی کر سکتا ہے جسے مستقبل میں کوئی امید نظر نہ آ رہی ہو مثلاً وہ کہتے ہیں: الیکشن سے ایک ماہ قبل تک ان کی طاقتور حلقوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں آنے والی کابینہ کے نام تک فائنل ہو رہے تھے۔ یہ بات اخبار میں چھپوا کر اور ان طاقتور حلقوں کو ملوث کر کے شہباز شریف کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اتنے ناامید لگتے ہیں کہ اب وہ اخباروں میں دبی دبی زبان میں ان حلقوں کی شکایت کر رہے ہیں اور ان پر پھر جو الزامات لگتے تھے کہ وہ اندھیری راتوں میں چھپ کر چوروں کی طرح ان حلقوں کے لوگوں سے ملتے تھے، اور ظاہر اپنے اور اپنے خاندان کے لئے رحم کی بھیک ہی مانگتے تھے، ان الزامات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ یہ کہہ کر کہ وہ آنے والی کابینہ کا فیصلہ کر رہے تھے انہوں نے مان لیا کہ وہ انتخابات کے نتائج کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک سازش کا حصہ بنے تاکہ الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے اپنی پسند کے لوگ حکومت میں لائے جا سکیں۔ مگر جیسا میرے نیو یارک کے دوست مسعود حیدر اکثر کہتے ہیں ’’مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ تو نہیں اور تیری جستجو بھی نہیں‘‘(یہ امیتابھ بچن کا ایک گانا ہے)۔ ظاہر ہے جن حلقوں کی وہ شکایت کر رہے ہیں وہ یا تو میاں صاحب سے مذاق کر رہے تھے یا صرف یہ دیکھنے کے لئے ان سے چھپ چھپ کر مل رہے تھے کہ وہ سیاسی صورتحال جان سکیں اور یہ اندازہ لگا لیں کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ ان حلقوں کا کام تو سیاستدانوں کی خبر رکھنا اور جو آپے سے باہر ہونے لگے اس کی خبر لینا ہی ہے مگر شہباز صاحب دھوکہ کھا گئے اور اب وہ اپنے بڑے بھائی کو مکمل قصور وار ٹھہرا رہے ہیں کہ ان کی ہٹ دھرمی اور ایک ناقابل عمل بیانیے کی وجہ سے وہ خود وزیر اعظم نہیں بن سکے حالانکہ ان کو یقین تھا کہ سب باتیں پکی ہو گئی ہیں اور وہ دولہا میاں بننے جا رہے ہیں مگر ان کے برادر بیچ میں آ گئے کہ یہ شادی نہیں ہو سکتی۔ چھوٹے میاں کہتے ہیں ’’میں اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر نواز شریف کے پاس گیا تاکہ پارٹی میں جانشینی کا فیصلہ ہو سکے۔نواز شریف نے مجھے پانچ چھ بار کہا کہ وزیر اعظم بن جائو مگر میں نے بات نہیں مانی‘‘۔ اب یہ بات کہنے کے بعد اپنے انٹرویو میں وہ فرماتے ہیں کہ حالانکہ نواز شریف ان سے بار بار کہہ رہے تھے کہ وزیر اعظم بن جائو مگر میں نے کہا مجھے اپنے بھائی کے پیٹ میں(ہونا تو چاہیے تھا کہ پیٹھ میں) چھرا گھونپ کر ملنے والا اقتدار قبول نہیں۔ تو یہ چھرا گھونپنے والی بات کہاں سے آ گئی اگر یہ سارا معاملہ دونوں بھائیوں کی رضا مندی اور مشورے سے ہو رہا تھا۔ مطلب یہ ہوا کہ چھوٹے میاں کی خواہش تو بڑی تھی مگر بڑے میاں تیار نہیں تھے اور یہ کہنا کہ انہوں نے پانچ چھ بار وزارت عظمیٰ کی آفر کی، ایک سیاسی بیان ہی ہے اور لوگوں کو خاص کر اپنی پارٹی والوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ بڑے میاں تو اب پاکستان سے گئے اور ن لیگ اب میرے کنٹرول میں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ کوئی اندھا اور عقل سے پیدل لیڈر ہی ان کی بات پر یقین کرے گا۔ مگر ایک اور سوال کے جواب میں چھوٹے میاں نے اپنی ہی باتوں کی اور پارٹی پر اپنے دعوے کی کھل کر تردید کر دی جب ان سے پوچھا گیا کہ حمزہ اور مریم کے بیچ کون سیاسی جانشین ہو گا اور نواز شریف سے انہوں نے مطالبہ کیا کہ جلدی یہ فیصلہ کر دیں تو بڑے میاں نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی اور ایسا جواب دیا جس کا مطلب تھا آئندہ ایسی بات نہ کرنا اور یہ فیصلہ میں واپس آ کر کرونگا۔ دوسرے لفظوں میں یہی کہہ دیا کہ ’’پراں ہٹ‘‘ ۔ خود چھوٹے میاں صاحب کے الفاظ کے مطابق بڑے میاں کی بیماری کے بھی سارے پول کھل گئے جب انہوں نے کہا کہ وہ Isolationمیں ہیں یعنی وہ اب کسی سے نہ ملتے ہیں اور نہ کہیں آتے جاتے ہیں۔ مگر جو سب سے معنی خیز بات انہوں نے کہی وہ یہ تھی کہ اب ان کے دل کی بیماری کا علاج کورونا کی وبا کے خاتمے کے بعد ہی ہو گا۔ اب یہ سب کو معلوم ہے کہ کورونا کی وبا کوئی ایک ہفتہ یا چند مہینوں میں تو کہیں نہیں جا رہی سو اب عجیب صورت حال بن گئی ہے کہ ان کے دل کا علاج جب تک دنیا سے کورونا ختم نہیں ہو جاتا نہیں ہو گا۔ دنیا اور میڈیکل سائنس کی تاریخ میں یہ شاید پہلا دل کا مرض ہے جو اس وقت تک Pauseپر رہے گا جب تک ایک عالمی وبا کا خاتمہ نہیں ہو جاتادوسرے الفاظ میں یہ دل کا مرض محض ایک ڈھونگ اور ڈرامہ ہی تھا اور ہے ۔ہمارے ملک کی عدالتوں اور جج حضرات کیلئے بھی سوال کھڑے ہو گئے کہ جس مرض اور جس شدت کیساتھ ان کے دل کی حالت اور گرتے چڑھتے پلیٹ لیٹس کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا وہ ایک ماموں بنانے کا ناٹک ہی تھا۔ اب اگر اس مسئلے کو کوئی عدالت اٹھاتی ہے تو نواز شریف کے ضمانتی چھوٹے میاں تو موجود ہیں اور وہی پہلے کورونا کا خاتمہ کرینگے اور پھر بڑے میاں سے کہیں گے کہ ملک واپس آ کر اپنی جیل کی سزا پوری کریں۔ ایک اور سوال ن لیگ کی سیاست کے بارے میں تھا اور ظاہر ہے چھوٹے میاں صاحب نے جواب یہی دینا تھا کہ آئندہ الیکشن میں ن لیگ بڑے مارجن سے جیتے گی کیونکہ عمران خان کی حکومت کی ناکام معاشی پالیسیاں انہیں لے ڈوبیں گی۔ اس سوال کا جواب تو کورونا نے دے دیا اور ایسا دیا کہ تین سال تک عمران خان کے سارے معاشی مسئلے تقریباً حل ہی ہو گئے وہ اس طرح کہ تقریباً 12ارب ڈالر کے قرضے دو تین سال کیلئے معاف ہو گئے۔ آئی ایم ایف نے سوا ارب ڈالر مزید دینے کا اعلان کر دیا۔ تیل کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح پر یعنی 18ڈالر پر آ گئیں اور حکومت نے شرح سود کم کر کے اور ٹیکس معاف کر کے بڑی اور چھوٹی صنعتوں کو خوش کر دیا اور پہیہ دوبارہ چلنے لگا۔یہ تو سارا اللہ کا فضل ہوا اور پھر خان صاحب اپنی پرانی سیاست پر لوٹ آئے۔ 10لاکھ نوجوانوں کی ایک ٹائیگر فورس بنا ڈالی اور سب سے بڑھ کر دو ہفتے کی مدت میں اربوں روپے غریبوں میں اس طرح بانٹ دیے کہ نہ کوئی دھاندلی کا الزام لگا اور نہ ہی لوٹ مار کا اور ہر غریب کو 12ہزار کی رقم ملنے لگی جو کئی لوگوں نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہو گی تو اس سیاسی معرکے کے بعد خان صاحب کی گڈی تو ساتویں آسمان پر اڑ رہی ہے اور آئندہ الیکشن میں یہ بات 12ہزار کا نعرہ اور یہ 10لاکھ کی ٹائیگر فورس تو ہر صوبے اور ہر پارٹی کو کچا کھا جائیگی۔ شہباز شریف اور دوسری پارٹیاں حیران اور پریشان ہیں کہ اب کون سا سیاسی ناٹک کریں خان تو آگے نکل گیا۔