آج کل ہر ایک دوسرے سے یہی پوچھتا پایا جاتاہے کہ کورونا سے چھٹکارا کب ملے گا؟صاف ظاہر ہے کہ اس سوال کا کسی کے پاس کوئی حتمی جواب نہیں ہے۔اگر حکومت کی بات کی جائے تو وزیرِ اعظم متعددبا رکہہ چکے ہیں کہ کورونا اگلے چھ ماہ تک بھی رہ سکتا ہے ،لیکن اس کی شدت کی بات کرتے ہوئے وہ ماہِ اپریل کو خصوصی درجہ دیتے ہیں۔ایک بہت ہی اہم حکومتی وزیر کا خیال ہے کہ اپریل کے آخر تک ،ہمارے ہاں مریضوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ جائے گی۔ہفتہ کی صبح تک پاکستان میں کل متاثرین کی تعدادچارہزار سات سواَٹھاسی تھی۔اس طرح یہ تعداد آنے والے دِنوں میں تیزی سے بڑھے گی۔اپریل کے آخر ی دِنوں میںروزے شروع ہوجائیں گے ، عبادت گاہوں میں عبادت کرنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی،تراویح کے ساتھ جمعہ کی نماز کا بھی خصوصی اہتما م کیا جائے گا،بازاروں میں مخصوص وقت میں رش بھی بڑھ جائے گا،اس طرح متاثرین کی تعدادبڑھ سکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ لاک ڈائون اگلے چند ایک روز میں یا تو ختم ہو جائے گا،یا اس میں نرمی پڑجائے گی،جس کے نتیجے میں لوگوں کا باہم ملناجلنا شروع ہو جائے گا۔تاہم کورونا کی وبا سے چھٹکارا کب ملے گا؟اس ضمن میں’’ ہم کورونا سے کیسے نمٹ رہے ہیں؟‘‘ پہلو کا جائزہ لے کر اندازہ باندھا جاسکتا ہے کہ وبا سے چھٹکارا کب ممکن ہوسکے گا؟ ہم اس وبا سے اب تک کیسے نمٹ رہے ہیں؟حکومتی سطح پر اس کا جائزہ لیتے ہیں: صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے اس وبا سے نمٹنے میں اپنی مقدور بھر اور بہت ہی مخلصانہ کوششیں کیں۔صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت سے غلطیاں بھی ہوئیں ،یہ غلطیاں بحرانوں سے نمٹنے میں ہوتی رہتی ہیں۔البتہ جو غلطی سب سے زیادہ کی گئی ،وہ تاخیر سے ردعمل دینا تھا۔اس میں بھی ایک پہلو ہے اور وہ یہ کہ گفت وشنید اور میٹنگز میں وقت صرف کیا جاتارہا۔اس میں بہتر طریقہ کار یہ تھا کہ صوبے اور وفاق ایک پیج پر فوری آتے اور ایک مشترکہ طویل میٹنگ کرتے ،لائحہ عمل بناتے اور شرو ع ہو جاتے۔مگر اس ضمن میں سیاست کی جاتی رہی۔تاہم صوبہ سندھ ،صوبہ بلوچستان اور بعد میں صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا نے بہترین انتظامی ذمہ داری نبھائی ،سب سے زیادہ کریڈٹ صوبہ سندھ اور وہاں کے وزیرِ اعلیٰ اور اُن کی ٹیم کو جاتا ہے۔وزیرِ اعلیٰ مُراد علی شاہ کی گفتگو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کچھ معاملات میں وہ بے بس ہیں ،ورنہ اس وبا سے نمٹنے میں اُن کا ویژن کلیئر اور طریقہ کار سائنسی ہے۔صوبہ پنجاب جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے ،کارکردگی کے لحاظ سے کوئی بُرا نہیں رہا۔وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار بھاگتے دوڑتے نظر آئے ہیں ،پنجاب کے دُور دراز علاقوں میں بھی پولیس نے لوگوں کو غیر ضروری طورپر گھروں سے نکلنے نہیں دیا۔وفاقی حکومت میں تذبذب کی کیفیت اور ترجیح کے چنائو کا مسئلہ محسوس ہوا۔وزیرِ اعظم عمران خان نے لاک ڈائون کی جزوی طور پر ممانعت کے ذریعے ’’ترجیح ‘‘میں چُوک کی ہے۔وبا کی صورت میں بائیس کروڑ جبکہ بھوک اور افلاس سے تین کروڑ کے قریب لوگ متاثرہونے کا اندیشہ تھا ۔ وفاق نے تین کروڑ کو ترجیح دی۔خیر!وفاق نے پاکستان کے عوام کو اکیلا نہ چھوڑا،طریقہ کار پر اعتراض ہوسکتا ہے ،مگر سرپرستی وفاق کی جانب سے خوب کی گئی۔بارہ ہزار کی رقم ایک کروڑ بیس ہزار خاندان کو ملناشروع ہوگئی ہے،یہ لوگوں کی بڑی خدمت ہے۔اسی طرح صوبوں نے بھی اپنے تئیں ،راشن اور امداد گھر گھر پہنچانا شروع کی ہوئی ہے۔ اب اس پہلو کا سماجی سطح پر جائزہ لیتے ہیں:سول سوسائٹی کی تمام آرگنائزیشن ،مستحقین کی امداد کے لیے سرگرم رہیں۔اپنی اپنی جگہ پر راشن اور امداد متاثرین کو پہنچائی گئی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔لیکن اس ضمن میں جو بڑی کوتاہی ہوئی اور ہورہی ہے ،وہ سماجی فاصلہ نہ رکھنے سے متعلق اور سماجی تنہائی ہے۔اِن تنظیموں نے لوگوں کے چولہے ٹھنڈے نہ ہونے کے جتن تو کیے مگر اس بیماری سے محفوظ رہنے کی بڑی ترغیب دینے سے قاصررہی ہیں۔سماجی سطح پرضرورت اس اَمر کی تھی اور اب بھی ہے کہ کچھ تنظیموں کو چاہیے کہ وہ گھر گھر جا کر لوگوں کو اس وبا کی شدت اور بچائو سے آگاہ کریں اور اُن کو سمجھائیں کہ گھروں میں رہیں ،راشن کی جگہ پر بڑی سطح پر جمع ہونے سے گریز کریں ۔سول سوسائٹی کی تنظیم کی بعد سب سے بڑی ذمہ داری مقامی سطح پر مذہبی رہنمائوں پر آتی ہے۔ا س ضمن میں ان کی طرف سے حکومت سے تعاون تو نظر آیا لیکن بے نیازی اور غیر سنجیدگی بھی دیکھنے کو ملی۔اب آتے ہیں عام پاکستانیوں کی جانب:عام پاکستانیوں کا ردعمل غیر سنجیدگی کا مظہر ٹھہرتا ہے۔عام لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے کہ یہ وبا کس حد تک خطرناک ہے اور یہ اِن کا ، پیاروں اور ملک کا بڑے پیمانے پر نقصان کرسکتی ہے۔یہ نقصان جانی و مالی دونوں طرح کاہے۔یہ لوگ گھروں سے بلاضرورت نکلتے ہیں ،حتیٰ کہ گلی میں چند نوجوان جمع ہو کر پتنگ بازی تک کرتے ہوئے پائے گئے ہیں ،بمطابق ہمارے دوست رانا محمد اکمل خان’’کرونا وائرس کا حملہ آپ کے عقیدے یا مذہب پر نہیں بلکہ آپ کے جسم پر ہے۔ سماجی دوری ہی ابھی تک واحد قابل عمل علاج ہے‘‘اگر حکومت ،انتظامیہ یا کوئی فرد آپ کو مسجد جانے سے روک رہا ہے تو وہ آپ کے عقیدے پر حملہ نہیں کررہا ،بلکہ آپ اور دوسروں کو اس وبا سے شکار ہونے سے محفوظ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ڈاکٹرز حضرات اور ہسپتال کا دیگر عملہ اس وبا کے خلاف ڈٹا ہوا ہے،کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ڈاکٹر حضرات جو سرکاری ہسپتالوں میں خدمات سرانجام نہیں دیتے اور پرائیویٹ کلینک یا ہسپتال چلاتے ہیں ،وہ بھی خود کو اس خدمت پر پیش کردیتے ،کیونکہ اس وقت تمام پرائیویٹ کلینک بند ہیں ،اس طرح پولیس کے سپاہی اپنی ڈیوٹی کو کماحقہ پورا کررہے ہیں۔