ملک میں لاک ڈائون کو ایک ماہ پورا ہوچکا ہے۔ پہلے بھی ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ لگتا ہے جیسے پوسٹ کورونا دنیا اور طرح کی ہوگی۔ ہوسکتا ہے برس دو برس میں اس کا علاج دریافت ہوجائے اور علاج کی نوبت کو پہنچنے سے بچنے کے لئے ویکسین بھی بن جائے مگر اس وقت تک ہم پچھلا طرز زندگی شاید بھول چکے ہوں۔ ایک بے لمس دنیا ہماری منتظر ہے۔ جان دار ہوں گے، شجر وحجر بھی اور انسانی ہاتھوں سے تراشی ہوئی دیگر اشیا بھی مگر حضرت انسان کو عطا کردہ پانچ ظاہری حسوں میں سے حس لامسہ کا استعمال کم سے کم ہوتا جائے گا۔ یہ ماسک اور دستانے شاید ہمارے لباسوں کا مستقل حصہ بننے جارہے ہیں۔ تقریبات، شاپنگ، تعلیم و تعلم سبھی کا انداز بدل جانے کو ہے۔ انسان مزید تنہا ہونے جارہا ہے، اپنی کھال کے خول میں تنہا۔ تغیر و تبدل زندگی کا حصہ ہیں مگر پچھلی صدی کی آخری دو تین دہائیوں سے یہ عمل یوں بھی بہت تیز ہوتا جارہا ہے۔میرے بچپن اور لڑکپن نے وہ زمانہ دیکھا ہے جب سہ پہر ڈھلتے ہی گلیاں، محلوں کے دھول اڑاتے میدان اور بڑے گھروں کے آنگن بچوں کے کھیل کود سے آباد ہوجاتے تھے۔ تھڑوں پر اور گلیوں کی نکڑوں پر جوانوں کی منڈلیاں لگتی تھیں۔ ادھیڑ عمر اور بزرگ بیٹھکوں، چوپالوں کو رونق بخشتے۔ رہیں خواتین تو ان کے پاس تو خیر پورا دن ہوا کرتا تھا، مل بیٹھنے کا اور ’’خبریں‘‘ اک دوجے سے شیئر کرنے کا۔ بندہ، بندے کے قریب تر تھا۔ پھر ٹیلی وژن آگیا۔ اب شام کی رونقیں گھروں میں قید ہونے لگیں۔ ہاں ٹی وی عام نہ تھا سو جس گھر میں ٹی وی ہوتا وہاں آس پڑوس کے بچے، عورتیں اکٹھے ہوجاتے۔ یہ آلہ جوں جوں عام ہوتا گیا زندگی گھروں میں مقید ہوتی گئی۔ میل جول کا دائرہ یوں تنگ پڑا کہ محلے کے گرد حصار کرنے کے بجائے ایک خاندان کو اپنی آغوش میں بھرنے جوگا رہ گیا۔ ٹی وی، وی سی آر، ڈی وی ڈی اور ڈیسک ٹاپ تک بھی ٹھیک تھا مگر انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کے ارزاں ہونے کے بعد تو اب خاندان کی باہمی جڑت بھی وہ نہیں رہی۔گھر کے پانچ افراد ہیں اور ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہیں مگر اک دوجے سے کوسوں دور۔ پڑھے لکھے طبقے میں فرد کی ’’پرائیویسی‘‘ کے استحقاق کا تھیسز آگے ہی مقبولیت پکڑ رہا تھا، اب وبا نے اور دوریاں بڑھا دی ہیں۔ آئندہ استاد کا جماعت سے، دفتر کا سائل سے، مقرر کا سامعین سے، دکان دار کا گاہک سے اور کھیل کا تماشائیوں سے رابطہ اب گیجٹس کے ذریعے ہوا کرے گا۔ تاہم پاکستان جیسا ملک جہاں طبقاتی نظام پہلے ہی خاصا مضبوط ہے، ایک اور بٹوارہ ہوجائے گا۔ معاشی حوالے سے تو پوری دنیا میں طبقات موجود ہیں تاہم مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں صحت و صفائی اور تعلیم کے حوالے سے ہر طبقے میں شعور موجود ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جہاں عوام کی صحت و تعلیم نہ حکومتوں کی ترجیح کبھی رہی ہے اور نہ ہی عوام کو خود اس کی پرواہ ہے۔ بے ایمان تاجر سڑک کنارے بیٹھ کر ہمارے کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرتا ہے، نہ ریاست نے کبھی اس کا ہاتھ روکا نہ ہم نے کہ جن کے پیٹ میں یہ گند جانا ہے۔ وہ فضا جہاں میں نے آپ نے اور ہمارے بچوں نے سانس لینا ہے، اس کو میں اور آپ جب جہاں آلودہ کرنا شروع کردیں! کورونا کے حوالے سے بھی کچھ ایسی ہی صورت حال درپیش ہے۔میں نے اسی کے ذکر کو بات شروع کی تھی مگر اور طرف نکل گئی۔ گزارش کررہا تھا کہ یہ سطریں بدھ کے روز لکھی جارہی ہیں اور لاک ڈاؤن کا مہینہ پورا ہو کا ہے۔ اب کچھ نرمی اختیار کی گئی ہے تاہم لاک ڈاؤن ختم نہیں ہوا۔ سہ پہر ڈھل رہی ہے ابھی ملک کے پانچویں بڑے شہر ملتان کے ایک بڑے بازار جو گردیزی مارکیٹ کہلاتی ہے سے ہوکر آیا ہوں۔ وہاں کا عالم دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اب اس بے پرواہ قوم کی بس ہوچکی ہے۔پولیس کا ایک ڈالا چیونٹی کی رفتار میں رینگتا تھا، کہیں ٹھہر بھی جاتا۔ اب ہو یہ رہا تھا کہ دکان داروں کے ملازم کھڑے تھے جہاں ڈالا گزرتا وہاں سے دس بارہ دکانیں آگے تک ملازم شٹر گرا دیتے۔ اندر کھچا کھچ خواتین بھری ہیں۔ ڈالا جونہی گزر کے آگے جاتا پیچھے پھر سے شٹر اٹھا دئیے جاتے۔ خال خال خواتین کے چہروں پہ ماسک یا ہاتھوں میں دستانے نظر آئے۔ بھیڑ بھڑکے کا پہلے کا سا عالم تو نہ تھا مگر رش بہرحال تھا۔ لگتا تھا پاکستان میں کورونا وائرس کا گویا کسی نے نام ہی نہیں سنا۔ کینٹ اور حسین آگاہی کے بعد تیسری بڑی مارکیٹ میں لاک ڈاؤن کی پابندی کے لئے ایک ڈالے میں بیٹھے چار سپاہیوں کی تعیناتی سے انتظامیہ کی سنجیدگی بھی ظاہر ہوتی ہے اور عوام تو خیر آگے ہی بے پرواہے۔ یہ سماجی دوری اور فاصلے اختیار کرنے کا شعور فقط شہروں کی بیس پچیس فی صد آبادی میں پایا جاتا ہے باقی کسی کو کوئی غرض نہیں۔ یہی ایک نئی طبقاتی تقسیم مستقبل میں نمایاں ہونے والی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ دیہاڑی دار، وہ بیچارے جو روز کنواں کھودتے اور تازہ پانی پیتے ہیں، وہ یقیناً بھوک سے مرنے کے بجائے کورونا کو ترجیح دیں گے۔ نہ وہ حفاظتی اقدامات اختیار کرسکتے ہیں اور نہ سماجی دوری کا اہتمام۔ ان دونوں کاموں کے لئے معاشی وسائل سے زیادہ شعور کی ضرورت ہے اور وہی عنقا ہے۔ اب آگے رمضان میں عید کی تیاریاں شروع ہوں گی، بازاروں میں ہجوم بڑھے گا، کیا اس کو ہم قابو کرپائیں گے؟ ابھی ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ لاک ڈاؤن میں جب سے نرمی ہوئی ہے کورونا کیسز کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ میرے گھر کی شمالی دیوار اور محلے کی مسجد کی جنوبی دیوار ایک ہی ہے۔ گویا ’’اک بندہ کمینہ ہم سایہ خدا ہے‘‘ قریب پندرہ دن ہوتے ہیں روز رات کو دس بجے اس خانہ خدا سے اذانوں کی صدا بلند ہوتی ہے۔پہلے دن مسجد سے اعلان کیا گیا تھا کہ وبا سے نجات کے لئے اپنے گھروں میں بھی تین سے سات بار اذان دیں۔ تب سے ہر شب سات بار اس مسجد کی سپیکروں سے اللہ کی بڑائی، خاتم الانبیا ء کی رسالت کی گواہی کا اعلان ہوتا ہے اور فلاح مانگی جاتی ہے۔ پہلے میں ان اذانوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا لیکن آج بازار کا چکر لگانے کے بعد اور سڑکوں پر تمام تر احتیاطی ہدایات کی دھجیاں اڑتی دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ اللہ پاک ان اذانوں اور نمازوں کے بعد کی جانے والی دعاؤں کے صدقے اس ملک کو وبا کے ہاتھوں محفوظ رکھے تو رکھے وگرنہ ہمارے عوام کچھ معاشی مسائل کی بنا پر اور زیادہ تر لاپروائی کی وجہ سے کورونا وائرس کی میزبانی کو دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے ہیں۔