لاہور(نامہ نگار خصوصی)لاہور ہائیکورٹ کے روبرو لڑکی بازیابی کیس میں بازیاب کرائی گئی لڑکی نے والدہ کو پہچاننے سے انکار کردیا اور عدالت کو بتایا یہ میری والدہ نہیں، میں اسے جانتی تک نہیں۔عدالت نے لڑکیوں کی خریدوفروخت میں ملوث گینگ کو بے نقاب کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دئیے لڑکیوں کی خریدوفروخت کورونا سے بھی بڑا کورونا ہے ،ان حالات میں کورونا جیسی وباء کیوں نہ آئے ۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے صدف بی بی کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار خاتون نے موقف اختیار کیامیری چودہ سالہ بیٹی عیزا کو سیالکوٹ کے شہری عقیل نے حبس بیجا میں رکھا ہے ، عدالت بازیاب کرائے ۔عقیل نے عدالت کو بتایا صدف نے سترہزار روپے کے عوض عیزاکومیرے گھرملازمت پر رکھوایا۔ عدالت نے کہا معاملہ تو لڑکیوں کی خریدوفروخت کادکھائی دے رہا ہے ، بادی النظر میں یہ پورا گینگ ہے جو لڑکیوں کی خریدوفروخت میں ملوث ہے ۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر لڑکی کے حقیقی والدین کو بھی پیش کرنے کی ہدایت کردی۔لاہور ہائیکورٹ نے ٹریفک حادثات میں دو مختلف قوانین کی دفعات لگانے اور ٹریفک حادثات میں گاڑیوں کو پولیس کے قبضہ میں رکھنے سے متعلق نیا اصول طے کر دیا،عدالتی فیصلے کے مطابق موٹر وہیکل آرڈیننس خصوصی قانون ہے اور ٹریفک حادثے میں ایک وقت میں دو مختلف قوانین کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا،پولیس قبضہ میں لی گئی گاڑی فوری طور پر واپس کرے ۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیااور11صفحات پر مشتمل فیصلے کو عدالتی نذیر بھی قرار دیدیا۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ دو فروری سے تھانہ لیسر کلاں پولیس نے ٹریفک حادثے میں گاڑی قبضے میں لے رکھی ہے ،عدالت پولیس کو لاہور سے ظفروال جانے والی کمپنی کی بس سپرداری پر حوالے کرنے کاحکم دے ۔عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا پولیس نے مقدمہ میں غفلت سے گاڑی چلانے ، زخمی کرنے اور گاڑی کو نقصان پہنچانے کی دفعات شامل کیں،موٹر وہیکل آرڈیننس کی دفعہ 279 کے تحت غفلت سے گاڑی چلا کر شہریوں کی جان کو خطرے میں ڈالنا مختلف اورتعزیرات پاکستان کی دفعہ 337 جی کے تحت کسی کو زخمی کرنا ایک مختلف نوعیت کا جرم ہے ، کسی حادثے کی صورت میں موٹر وہیکل انسپکٹر گاڑی کو 48 گھنٹوں سے زیادہ قبضے میں نہیں رکھ سکتا، مختلف کیسز میں ذمہ داروں کے خلاف فوجداری کارروائی بھی کی جا سکتی ہے ،حکام کے کسی کے قانونی حق کو تسلیم کرنے سے انکارپر لاہور ہائیکورٹ مداخلت کر سکتی ہے ، حادثے کی ذمہ داری کا تعین کرنے کیلئے کسی کی گاڑی غیر معینہ مدت تک کیلئے قبضے میں رکھنے کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا، گاڑیوں کو قبضے میں رکھنے سے متعلق پولیس رولز اور موٹر وہیکل آرڈیننس متصادم ہور رہے ہیں،پولیس رولز 1934 عمومی جبکہ موٹر وہیکل آرڈیننس خصوصی قانون ہے ، ایسے میں بعد میں آنے والے قانون کو فوقیت دی جائے گی۔