ملک بھر میں کورونا وائرس سے مزید 72افراد جاں بحق ہو گئے ہیں جبکہ مزید ہزاروں نئے کیسوں کے ساتھ وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 2لاکھ تک پہنچ گئی ہے، اگرچہ 87ہزار کے قریب مریض صحت یاب بھی ہوئے ہیں لیکن اب بھی 96لاکھ سے زائد پاکستانی لاک ڈائون میں زندگی گزار رہے ہیں، بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ حکومت اور عوام نے شروع دن سے ہی کورونا وائرس کو سنجیدہ نہیں لیا، حکومت نے اپنے طور پر جو سوچا کیا، لوگوں کے لیے ایس او پیز بنائے گئے لیکن عوام نے مان کر نہیں دیا، لیکن جو اقدامات کیے گئے بہت دیر سے کیے گئے، کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے لیے سخت لاک ڈائون کرنا چاہئے تھا لیکن حکومت بعض حلقوں کی طرف سے دبائو کا مقابلہ نہیں کر سکی نتیجتاً اپریل، مئی اور جون میں کورونا قہر بن کر ٹوٹا اور متاثرین اور اموات میں اضافہ ہوتا گیا، جبکہ مغربی ملکوں اور امریکہ وغیرہ میں اس عرصہ کے دوران اموات کی تعداد کم ہوئی۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ادھر ٹیسٹنگ لیبارٹریوں اور پرائیویٹ کلینکوں نے کورونا ٹیسٹ کے منہ مانگے دام وصول کرنا شروع کر دیئے۔ اس چور بازاری کے نتیجہ میں غریب لوگ ٹیسٹ کرانے سے بھاگنے لگے اور اپنے طور پر پڑھے لکھے لوگوں نے گھروں میں ہی قرنطینہ لینا شروع کر دیا۔ جب کئی ماہ تک احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا گیا تو متاثرین کی تعداد بڑھتی گئی۔ اب بھی وقت ہے کہ لوگ کورونا کے عفریت کو سمجھیں، احتیاط کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کو دیکھے۔