جہانبانی و حکمرانی ایک آرٹ ہے جس کے لئے طویل ریاضت اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہم نے اسے بچوں کا کھیل سمجھ رکھا ہے۔ اس لئے ہم قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتے ہیں مگر غور و فکر اور تدبر اختیار کرنے پر مائل نہیں ہوتے۔کسی عرب بادشاہ نے ایک دانا بدوی سے درخواست کی مجھے نصیحت کرو۔ بدوی نے کہا یاد رکھو! حکمرانی پچاس فیصد خوش خلقی اور باقی پچاس فیصد انصاف پسندی ہے۔ اسے ہماری بدقسمتی ہی سمجھیے کہ ہمارے حکمرانوں میں یہ دونوں صفات ناپید ہیں۔ وہ انصاف پسندی کے بجائے خود پسندی اور رعب و دبدبے سے کام لیتے ہیں۔ کام کیا لیتے کیا ہیں الٹا کا بگاڑ لیتے ہیں۔ میرا بیٹا ڈاکٹر بلال۔ بیرون ملک ایمرجینسی سپیشلسٹ ہے اور شب و روز ہسپتالوں میں ڈیوٹی دے رہا ہے۔ بلال کی ماں زمانے سے سحر خیز تھی مگر اب تو مجھے لگتا ہے کہ وہ نصف شب کو ہی بیدار ہو جاتی ہیں اور گڑ گڑا کر رب دو جہاں کے حضور نہ صرف اپنے بیٹے بلکہ کل جہاں کے ڈاکٹروں‘ نرسوں اور طبی عملے کی حفاظت کے لئے دعائیں کرتی ہیں۔ میرے دل سے بھی ہر وقت یہ دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ! ہم نے قیامت کا پرومو دیکھ لیا ہے اور یقین کر لیا ہے کہ یہ ضرور برپا ہو گی۔ اب تو ہم پر رحم فرما اور ساری خلقت کو کو رونا کی آفت سے نجات دے۔ پیر کی صبح کوئٹہ کے ینگ ڈاکٹروں کی مائوں کے دلوں پر کیا گزری ہو گی کہ جب انہوں نے دیکھا ہو گا کہ ان کے جگر گوشوں پر پولیس وحشیانہ طریقے سے ڈنڈے برساتی ہوئی انتہائی بدتمیزی کے ساتھ انہیں پولیس کی گاڑیوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس رہی ہے۔ ان کا قصور کیا تھا؟ ان ینگ ڈاکٹرز کا کتنا جائز مطالبہ تھا کہ آپ نے ہمیں محاذ جنگ پر بھیج دیا ہے مگر ہمارے پاس بندوق ہے نہ کوئی اور اسلحہ۔ کورونا حفاظتی کٹس پہن کر بھی ڈیوٹی دیتے ہوئے اس موذی مرض کے لاحق ہونے کے وسیع تر خدشات ہوتے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز نے بتایا ہے کہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود کسی نے ہماری بات نہیں سنی اور ہمیں کہا جا رہا تھا کہ ہم بغیر حفاظتی کٹس کے کام جاری رکھیں۔ اس پر مجبوراً ہمیں احتجاج کرنا پڑا تو پولیس نے ہمارے ساتھ اتنا اہانت آمیز سلوک اختیار کیا۔ بلوچستان کی وزارت صحت کے اپنے مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تک کوئٹہ کے سول ہسپتال کے کارڈیالوجی وارڈ کے سربراہ سمیت 14ڈاکٹرز اور دیگر عملے کے چھ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اگر ڈاکٹرز خود ہی مریض بن جائیں گے تو مریضوں کا علاج کون کرے گا۔ گزشتہ ہفتے لاہور ‘ کراچی اور دیگر کئی شہروں میں پولیس نے ڈاکٹروں نرسوں اور طبی عملے کو گارڈ آف آنر پیش کیا اور انہیں پھول پیش کئے گئے تاکہ پولیس کا سافٹ امیج اجاگر ہو سکے مگر پولیس نے ایک ہفتہ گزرنے سے پہلے ہی اپنے ہاتھوں اپنی خوش اخلاقی کا ملمع اتار پھینکا اور اپنی اصلیت کے ساتھ پھنکارتی ہوئی کوئٹہ میں سامنے آ گئی اور اس نے 50کے قریب ڈاکٹروں کو گرفتار کر لیا۔ کل رات گئے کوئٹہ سے خبر آئی کہ ڈاکٹروں نے حکومتی معذرت اور حفاظتی کٹس کی فراہمی کی یقین دہانی پر ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایس پی آر کی طرف سے یہ خبر بھی آئی کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو سی ون تھرٹی طیاروں میں کوئٹہ کے ڈاکٹروں کے لئے حفاظتی سامان بھیج دیا ہے۔ اپنے بیٹے بیٹیوں کے لئے جنرل صاحب کی ہمدردی اور فکر مندی ان کے فوری ایکشن سے عیاں ہے مگر اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کہاں ہیں؟ لگتا یہ ہے کہ بلوچستان کی وزارت صحت اور حکومت میں کوئی بھی رجل رشید نہیں کہ جو موجودہ نازک صورت حال کا احساس کرتے ہوئے ڈاکٹروں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتا۔ پہلے سے پیش بندی کرتا اور اس طرح کی ناخوشگوار صورت حال نہ پیدا ہونے دیتا۔ حکومت تو تیاریوں اور پریس کانفرنسوں اور ٹائیگرز کی وردیاں سلوانے میں مشغول ہے مگر کچھ بندگان خدا نے خلق خدا کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے۔ میں نے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن سے وابستہ ڈاکٹر شمشاد علی اور ڈاکٹر جاوید احمد صادق سے رابطہ کیا اور انہوں نے بہت مفید معلومات فراہم کیں۔ پھر پیما کے کل پاکستان صدر پروفیسر محمد افضل سے تازہ ترین صورت حال معلوم ہوئی۔ اس وقت تک یہ میڈیکل ایسوسی ایشن سارے پاکستان میں حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کر رہی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر افضل کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ذرائع اور الخدمت کے مالی تعاون سے اس وقت تک عالمی معیار کی تقریباً20,000حفاظتی کٹس تیار کر کے مختلف شہروں کے ڈاکٹروں میں تقسیم کروا چکے ہیں۔ پیما نے صرف لاہور میں دو ہزار حفاظتی کٹس ڈاکٹروں اور دیگر عملے کو فراہم کی ہیں۔ ڈاکٹر افضل نے یہ بھی بتایا کہ ہم اب تک تقریباً چھ سات سو کٹس کوریئر سروس سے کوئٹہ بھیج چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ذرائع سے ینگ ڈاکٹرز سے درخواست کی ہے کہ وہ اس نازک گھڑی میں حکومت کی کوتاہیوں کو نظر انداز کریں نیز اپنی حفاظت اور مریضوں کی دیکھ بھاگ کو باقی ہر شے پر ترجیح دیں۔ اس سے پہلے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو الخدمت کے پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم الخدمت کے تمام ہسپتال کورونا کے مریضوں کے لئے حکومت کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں۔ اگر حکومت ڈاکٹروں اور طبی عملے کی کمی کی بنا پر انہیں خود نہ چلا سکے تو ہمارے ڈاکٹر‘ نرسیں اور دیگر طبی عملہ اس قومی خدمات کے لئے ہمہ وقت تیار ہے اور ہم اپنے ذرائع سے مریضوں کی دیکھ بھال کا فریضہ اسلامی و قومی خدمت سمجھ کر انجام دیں گے۔ہمیں یہ معلوم کر کے مزید تشویش ہوئی کہ ڈیرہ غازی خان میں کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے 14ڈاکٹر اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے گلگت بلتستان میں ڈاکٹر اسامہ ریاض اور سندھ میں ڈاکٹر عبدالقادر سومرو کورونا مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے خود اس بیماری کے ہاتھوں شہادت کا مرتبہ پا چکے ہیں۔ جب تک پولیس کی کم از کم اتنی تعلیم و تربیت نہیں ہوتی جتنی موٹر وے پولیس کی ہے اس وقت تک پولیس کے چہرے پر لگا ’’سافٹ امیج‘‘ کا غازہ ہلکی سی بارش سے ہی دھل دھلا جائے گا۔