اس وقت ملک میں کورونا وباء کی شدت کا موسم ہے۔یہ خوف اور موت کا موسم زیادہ عرصہ برقراررہنے کا امکان رکھتا ہے۔کوئی بھی بیماری ،وباء یا پھر بحران کتنا عرصہ رہ سکتے ہیں؟یہ علاج اور طریقہ ٔ علاج پر منحصر ہوتا ہے۔طریقۂ علاج میں بیماری ،وبا ء اور بحران سے نمٹنے والے کا روّیہ آجاتا ہے۔ابھی تک کورونا وباء کا علاج دریافت نہیں ہوا۔کسی دوا یا ویکسین کے آنے تک ،اس کا علاج انسانی روّیے سے جڑچکا ہے۔انسانی روّیہ کی بدولت کورونا وباء سے جلد چھٹکارا پایاجاسکتا ہے یا طوالت دی جاسکتی ہے۔جن انسانی آبادیوں میں انسانی روّیہ’’ احتیاط‘‘کا حامل رہا ،اُن آبادیوں میں وباء کی شدت اور بیماری کا دورانیہ کم رہا ہے۔یہ ’’احتیاط‘‘پر مبنی روّیہ اس کا علاج ہے۔یہ علاج کیا ہے؟ماسک لگانا،سماجی فاصلہ رکھنا اور ہاتھوں کو باربار دھونا۔ایک خطر ناک اور نادیدہ وائرس کایہ علاج بہ ظاہر بہت آسان ہے،مگر یہ بہت مشکل بھی ہے۔یہ علاج کن انسانی آبادیوں کے لیے مشکل ہے؟اُن آبادیوں کے لیے جن کے روّیے (معذرت کے ساتھ)انسانی نہیں ہوتے۔جس کی ایک مثال ہم ہیں۔صحت کے ادارے،معالجین باربارکہتے ر ہے کہ گھر سے بلاضرورت مت نکلیں،سماجی فاصلہ رکھیں ،ماسک لگائیں ،ہاتھوں کو باربار دھوئیں ،مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔وجہ؟کہ باربار ہاتھ دھونا،ماسک لگانا،سماجی فاصلہ رکھنا،گھروں میں رہنا،ہمارا روّیہ ہی نہیں ۔ہم تھڑوں ،چوراہوں میں چوکڑی مارکر بیٹھنے والے لوگ،ہم گلی کی نکڑپر ہجوم کی شکل میں راستہ روک کرکھڑے ہونے والے لوگ،ہم گندا پانی پینے اور گندے پانی سے تیارشدہ’’ مشروب ‘‘بیچنے والے لوگ،ہم جتھوں کی شکل میں دھاوا بولنے والے لوگ(ہمارے ہاں اگر کسی کو شادی کی تقریب میں دعوت ہو تو وہ جاتے ہوئے راستے میں ایک دودوستوں کو ضرور ساتھ لیتا جاتا ہے)ہم ویگنوں ،بسوں اور ٹرینوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرنے والے لوگ،ہم سے یہ توقع رکھی جائے کہ ہم ایک حکم پر ’’صاف ستھرے‘‘ہوجائیں تو یہ کیونکر ممکن ہے؟ہمارے ہاں کھانے پینے کے چھوٹے موٹے ہوٹلز ایسی جگہوں پر ہوتے ہیں ،جہاں بہت گندہ ماحول ہوتا ہے۔گنجان مارکیٹوں ،جہاں گاڑیوں کی مرمت ہورہی ہوتی ہے ،دھواں اُٹھ رہا ہوتا ہے ،اُدھر ہی کوئی بس کے ٹائر کے ساتھ لگا بیٹھا اپنا مثانہ خالی کررہا ہوتا ہے ،ساتھ ہی فاصلے پر ہوٹل ہوتا ہے،جہاں کھانا بن رہا ہوتا ہے اور لوگ بیٹھے کھا رہے ہوتے ہیں۔ایسے چھوٹے موٹے ہوٹلوں میں جن برتنوں میں کھانااور چائے دی جاتی ہے ،وہ برتن سارادِن گندے پانی سے دُھلتے رہتے ہیں۔ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ گھر تعمیر کرواتے وقت کچن اور واش روم کی خوبصورتی پر ذرا دھیان نہیں دیتے۔ مَیں ایک عرصہ ملازمت کی غرض سے لاہور رہا،جس ایریا میں دفتر تھا ،وہاں لوگ بہت اُونچا بولتے تھے،ایک عرصہ تو مجھے سمجھ نہ آئی کہ یہ سب اُونچی آواز میں کیوں بولتے ہیں۔پھر جب مَیں خود اُونچا بولنے لگ پڑا تو معلوم ہوا کہ ٹریفک کا شور اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ ہر ایک اُونچی آواز میںبولنے پر مجبور ہے۔اب برس ہا برس اُونچی آواز میں بولنے والوں سے اچانک کہاجائے کہ آواز دھیمی رکھیں تو اُن کو یہ روّیہ اپنانے میں ایک خاص وقت لگے گا۔پھر بھی بہت سارے لوگ مرتے دَم تک اُونچی آواز میں ہی بولتے رہیں گے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ شور کی سطح کو کم کیا جائے۔یہ روّیہ ہی ہوتا ہے ،جو ہمیں مہذب وغیر مہذب خانوں میں رکھتا ہے۔اگر ہمارے روّیے میں لچک ہے ،تو ہم رواداری کا مظاہرہ کریں گے ،اگر ہمارے روّیے میں لچک نہیں تو ہم عدم رواداری کا مظاہرہ کریں گے۔اگر ہمارے روّیے میں خوش اخلاقی ہے تو اردگرد خوب صورتیاں جنم لیں گی اگر ہمارا روّیہ بداخلاقی کا حامل ہے تو بدصورتیاں جنم لیں گی۔نیکی بجز اس کے کچھ نہیں کہ آپ کے عمل سے اردگرد کے ماحول پر خوشگوار اثرات پڑیں اور گناہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ آپ کے عمل سے اردگردکے ماحول پر ناخوشگوار اثرات پڑیں۔جب تک ہم بھرپورطریقے سے دُشنام بازی نہ کریںاور زور دار طریقے سے نہ کھانسیں ،تو گالی دینے کا’’ مزہ‘‘آتا ہے نہ کھانسنے کا۔ یہ ہمارا روّیہ ہی ہوتا ہے کہ جو بحران چاہے معمولی گھریلو جھگڑا،کوئی تنازعہ یا آفت کی صورت ہو ،سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے۔ہمارا روّیہ تو یہ ہے کہ معمولی گھریلو جھگڑوں کو بیچ چوراہے لے آتے ہیں،عام تنازع کو نسلوں کی زندگیوں پر محیط کردیتے ہیں اور آفت کو شدید نوعیت کی شکل دے ڈالتے ہیں۔ہر طرح کے بحران سے نمٹنے کا ہمارا روّیہ مصنوعی اور عارضی ہوتا ہے اور اس میں دوسروں پر ذمہ داری اور بوجھ نیز الزام کا عنصر شامل ہوتا ہے۔مثال کے طورپر ہمارے ہاں ہر دوچار سال بعد سیلاب آتا ہے۔سیلاب زَدہ علاقوں کے لوگ ہر بار اپنا سامان ،ڈھورڈنگر خشکی پر لے آتے ہیں ،وہاں عارضی خیموں میں چند دِن پڑے رہتے ہیں ،سیلاب اُتر جاتا ہے تو پھر واپس ہولیتے ہیں۔ہر بار جانی و مالی نقصان اُٹھانے کے بعد یہ لوگ سیلاب سے خود کو محفوظ رکھنے کا کوئی پائیدارطریقہ نہیں ڈھونڈتے ،اُلٹا ’’دریا‘‘کو موردِ الزام ٹھہراتے رہتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے یہ روّیے کیونکر پروان چڑھے۔روّیوں کی تشکیل کے دیگر کئی ذرائع ہیں ،ایک ذریعہ معیشت ہے۔اگر کسی انسانی آبادی کا سماجی نظام معاشی انصاف پر مبنی ہے تو وہاںبہتر روّیے تشکیل پائیں گے۔اگر دو بھوکے آدمیوں کے سامنے ایک روٹی رکھی جائے تو ہردو کی کوشش ہو گی کہ وہ خو د پہل کرے اور روٹی کا زیادہ حصہ کھائے۔اسی طرح اگر دوپیٹ بھرے آدمیوں کے سامنے عمدہ کھانا رکھا جائے تو ہر دَو ایک دوسرے سے کہیں گے ،پلیز! پہلے آپ لیں ،پلیز! پہلے آپ لیں۔اگر ہمارے ہاں بھوکوں کی تعداد زیادہ نہ ہوتی تو ہماری بڑی آبادی لاک ڈائون کی مخالفت کرتی؟ مَیں ڈررہا ہوں کہ ہمارے روّیے کی بدولت ،کورونا وباء کا پڑائو زیادہ دیر رہے گا اور اس کی کئی لہریں آئیں گی۔اس عرصہ میں کئی انسانی المیے جنم لیں گے اور معاشی بحران زیادہ گمبھیر صورت اختیار کرلے گا۔یہ وباء جتنا عرصہ رہے گی ،ہمارا جانی و مالی نقصان زیادہ کرتی رہے گی۔لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنی اس پالیسی کہ ’’عوام ذمہ داری کا مظاہرہ کریں‘‘سے مکمل طورپر ہاتھ اُٹھا کر سختی سے ’’احتیاط‘‘پر عمل کروائیںتاکہ یہ وباء زیادہ دیر پڑائو نہ ڈال سکے۔