جوں جوں لاک ڈاؤن نرم کیا جا رہا ہے کورونا کی مہلک وبا پاکستان پر پوری طرح حاوی ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ جمعتہ المبارک کا دن اس حوالے سے بدترین دن تھا ،اس روز چوبیس گھنٹے میں ریکارڈ 96افراد جاں بحق ہوئے جن میں چار ڈاکٹر بھی شامل ہیں ،لا ہورکے فاطمہ میموریل ہسپتال میں کورونا مریضوں کا علاج کرنے والی نوجوان ڈاکٹر ثناء فاطمہ بھی انتقال کر گئیں۔ ان کی عمر تیس سال سے بھی کم بتائی گئی ہے۔ بہت سے نوجوان بھی اس وبا کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں ماہرین مصر ہیں کہ کورونا ساٹھ برس سے زائد عمر کے بزرگوں پر ہی حملہ آور ہوتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں ہلاکتیں دنیا میں چھٹے نمبر پر پہنچ گئی ہیں اور مئی کا مہینہ کورونا وائرس کے حوالے سے خونی ثابت ہوا ہے۔ 7مئی سے جب این سی سی کے اجلاس میں لاک ڈاؤن نرم کرنے کا فیصلہ کیا گیا کورونا کے کیسز کئی گنا بڑھتے جا رہے ہیں۔ اپریل کے آخر میں متاثرہ افراد کی تعداد16473جبکہ اموات 361تھیں جو انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ کر 30مئی تک بالترتیب 68177 اور 1441تک جا پہنچیں۔ کورونا کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان روز اول سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ میں لاک ڈاؤن کے خلاف ہوں، اس سے غریب آدمی بھوک سے مر جائے گا ‘خصوصاً روزانہ کمانے والے دیہاڑی دار کا کیا بنے گا۔ غالباً حکومت کو بجا طور پر یہ خدشہ بھی ہے کہ پہلے سے بیٹھی ہوئی اکانومی مزید بیٹھ جائے گی۔ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس میں لاک ڈاؤن پر برہمی اور مارکیٹوں کی ٹائمنگ پر ریمارکس سے حکومت کے موقف کو مزید تقویت پہنچی ،چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ ریمارکس قابل ذکر تھے کہ ہفتہ اور اتوار کو کیوں مارکیٹیں بند رکھی جائیں کیا وائرس نے وعدہ کر رکھا ہے کہ ہفتہ اور اتوار کو نہیں آئے گا۔ اس حوالے سے طبی ماہرین اور سیاستدان یہ کہتے رہے کہ موجودہ پالیسی کے انتہائی خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ، لیکن ہمارے ہاں عام خیال ہے کہ ریاست مدینہ کے باسیوں پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے وارننگ دی تھی کہ جولائی تک پاکستان میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ اپریل میں کیسز اور اموات کم تھیں جن کی بنیاد پر عالمی ادارہ صحت کے اس انتباہ کو نظر انداز کر دیا گیا لیکن اب جس تیزی سے کورونا پھیل رہا ہے جولائی تک وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز ہونا خارج ازامکان نہیں ہے۔ بدقسمتی سے کورونا وائرس کو سیاسی رنگ دے دیا گیا اور بجائے اس کے محرکات پر غور اور سدباب کے لیے اقدامات کرنے کے وفاقی حکومت کے ترجمان اور سندھ حکومت ایک دوسرے سے برسر پیکار نظر آنے لگے اس پر مستزادیہ کہ حکومت نے شاپنگ مالزاور مارکیٹیں بھی کھولنے کی اجازت دے دی۔ علماء حضرات جو پہلے ہی حکومت کی رٹ ماننے کو تیا ر نہیں کو بھی کھلی چھٹی دے دی گئی اور اب ریستوران کھولنے کی بھی تیاریاں ہیں۔میڈیا پر اس کی بہت دہائی دی جاتی ہے کہ ماسک پہنیں ، سماجی فاصلہ رکھیں ،میل جول سے پرہیز کریں لیکن جب حکومتی اہلکار انہی احتیاطی تدابیر کو اختیار نہ کریں تو عوام کیونکر اس پر عمل کریں گے۔ ویسے بھی جب روزمرہ کا کاروبار اور دکانیں کھول دی جائیں تولاک ڈاؤن سے اکتائے ہوئے عوام کیونکر گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے۔ حکومتی ترجمان بجا طور پر یہ مثالیں دے سکتے ہیں کہ برطانیہ ،سپین ،امریکہ اور دیگر ممالک میں کورونا کے متاثرین اور ہلاکتیں کئی گنا زیادہ ہونے کے باوجود لاک ڈاؤن نرم کر دیا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں دانستہ طور پر ایک اہم نکتہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ عمومی طور پر جن ممالک میں لاک ڈاؤن نرم کیا گیا ہے وہاں متاثرین اور شرح اموات میں اضافہ رکنے یا کم ہونے کے بعد ہی پابندیاں نرم کی جا رہی ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ برازیل کے صدرJair Bolsonaro تیزی سے وبا میں اضافے اور ہلاکتوں کے باوجود من مانی کرتے رہے لیکن عمومی طورپر اکثر ممالک اپنے سائنسدانوں اور طبی ماہرین کے مشوروں پر غور کر رہے ہیں لیکن ہماری قیادت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حوالے سے اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ڈاکٹر انتھونی فاؤسی جو امریکہ کے قومی ادارہ برائے وبائی امراض کے ڈائریکٹر ہیں ،کورونا وائرس کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کے پوائنٹ مین ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بوالعجبیوں سے کھل کر اختلاف کرنے کی جرأت کرتے ہیں حتیٰ کہ جب ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ وہ ملیریا کی دوائی کلورکین لے رہے ہیں انہوں نے کھل کر اختلاف کیا لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔ معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا قوم کو یہ واکھیان تو دیتے ہیں کہ آپ احتیاطی تدابیر اختیار کریں ورنہ دوبارہ لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا۔ لیکن کیا وہ اپنے باس وزیراعظم عمران خان کے سامنے جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ حضور !آپ کے ان فیصلوں کے تباہ کن نتائج برآمد ہونگے اوراگر وزیراعظم ان کی بات نہ مانیں تو استعفیٰ بھی پیش کر سکتے ہیں؟۔ لیکن ہمارے ہاں چونکہ قریباً ہر اعلیٰ عہدیدار یا اہلکار اپنے منصب کا محصور بن کر رہ جاتا ہے۔ اس تناظر میں وقت آ گیا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو ان کی کورونا وائرس کے بارے میں روز اول سے درست پالیسیوں کی بنا پر ترجمانوں اور سندھ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء اور گورنر سندھ سے رگڑا لگوانے کے بجائے ان کی طرف دست تعاون بڑھائیں۔اسی طرح حکومت سندھ کو بھی مرکز کے ساتھ بے جا محاذ آرائی سے اجتناب برتنا چاہیے۔ جہاں تک پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا تعلق ہے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے بڑی ضدکر کے کورونا پر بحث کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس بلوایا لیکن انہوں نے اپنی صحت کا جواز بنا کر خود اس میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی یا سینیٹ میں قدم رنجہ فرمایا۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بے جا قسم کی فقرے بازی جو ہر روز شام کو ٹاک شوز کو گھیرے رکھتی ہے۔ کی طرح اس اجلاس کی اہمیت بھی نشستند،گفتند وبر خاستند سے زیادہ نہیں تھی۔ اس پس منظر میں حکومت کو کویڈ 19کے بارے میں موجودہ پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے اور اگر اپوزیشن کو بھی آن بورڈ لے لیا جائے تو یہ پالیسی زیادہ موثر اور کارآمد ثابت ہو گی۔ ہماری سیاست کا ایک المیہ یہ ہے کہ حکمران اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے سے ہچکچاتے ہیں چونکہ ان کے اردگرد خوشامدی یقین دلاتے رہتے ہیں کہ حضور ! آپ جیسا چغادری لیڈر کوئی غلطی کر ہی نہیں سکتا۔ تحریک انصاف کا یہ موقف ہے کہ اپوزیشن کے لوگ چور اور ڈاکو ہیں لہٰذا ہم ان سے ہاتھ نہیں ملائیں گے محض عذر لنگ ہے کیونکہ جب تک عدالت میں ثابت نہ ہو کہ واقعی وہ چور اور اچکے ہیں وہ بھی منتخب ہو کر ایوانوں میں آئے ہیں اور اس لحاظ سے برابری کی سطح پر ان کا موقف سننا اور انہیں رسوا نہ کرنا جمہوریت کی اصل روح ہے۔