عید الفطر کی تعطیلات کے فوری بعد کورونا کے مریضوں کی بڑھتی تعداد نے اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ عوامی سطح پر بے احتیاطی وبا میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ تازہ ترین اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کل متاثرہ افراد کی تعداد 57705تک جا پہنچی ہے۔ ان میں سے 18314افراد صحت یاب ہوئے ہیں۔ کورونا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 1197ہو گئی ہے۔ عالمی سطح پر کورونا کی بات کریں تو دنیا بھر میں اس کے متاثرہ افراد کی تعداد 55لاکھ تک ہو گئی ہے جبکہ مرنے والوں کی گنتی 3لاکھ 46ہزار بتائی جا رہی ہے۔ دو ہفتے قبل حکومت نے مرحلہ وار لاک ڈائون نرم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اعلان کو اس بات کے ساتھ مشروط کیا گیا تھا کہ متعلقہ افراد ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنائیں گے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے لاک ڈائون میں نرمی یا ختم کرنے سے ابتدا میں انکار کیا تو پورے ملک کی کی تاجر برادری نے احتجاج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ تاجروں کو کرایہ، ملازمین کی تنخواہیں اور یوٹیلٹی بلز کے حوالے سے یقینا مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت ان کے مسائل پر توجہ کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے 1200ارب روپے کا جو امدادی پیکج جاری کیا ہے اس میں تاجر برادری کے لیے بھی مراعات شامل ہیں۔ حکومت ہی نہیں سماجی سطح پر یہ ادراک موجود تھا کہ تاجر حکومت کے جاری ایس او پیز پر عمل نہیں کر سکیں گے۔ حکومت پر مسلسل دبائو ڈالا جاتا رہا کہ لاک ڈائون ختم کیا جائے۔ پاکستان میں عیدین پر خریداری دینی احکامات کے دائرے سے باہر نکل چکی ہے۔ اللہ اور اس کے پیارے رسولؐ کی تعلیمات کی بات ہو تو کسی معاشی اور طبی بحران کے دوران عید سادگی سے منانے کا درس ملتا ہے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ غریب آدمی صرف اس دبائو کو برداشت نہیں کر پاتا کہ اس نے بچوں کو نئے کپڑے خرید کر نہیں دیئے، اس دبائو کے نتیجے میں کئی بار وہ خود کشی کر لیتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اہل پاکستان نے بھوک اور بیماری سے زیادہ اس سماجی دبائو کے خیال سے عید سے قبل بازاروں اور شاپنگ مالز پر دھاوا بول دیا۔ بڑے شاپنگ مالز میں کسی حد تک سماجی فاصلے اور سینی ٹائزر کے استعمال کے حوالے سے ہدایات پر عمل دکھائی دیا لیکن عام بازاروں کی جو تصاویر سامنے آئیں ان سے کورونا کی وبا کے متعلق عوام کی غفلت اور لاپرواہی جھلکتی ہے۔ تاجروں کے مطالبات مانے جانے کے بعد یہ سوال درست اور جائز تھا کہ لاک ڈائون کیا صرف عبادت گاہوں اور دینی اجتماعات کے لیے رہ گیا ہے۔ یہ سوال اٹھایا گیا۔ حکومت نے پہلے جمعۃ الوداع اور پھر عید الفطر کے اجتماعات کی اجازت یہ کہہ کر دیدی کہ نمازی حکومت کے اعلان کردہ ایس او پیز پر عمل کریں گے۔ عید کی تعطیلات کے دوران لوگوں کو بڑی تعداد ایک بار پھر رشتہ داروں سے میل ملاقات کر رہی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک ہفتے کے دوران ایک دوسرے کو ملنے سے کچھ برا نتیجہ نہیں نکلا لہٰذا اس لاپرواہی کو جاری رکھا جائے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے خیال رہے کہ ملک میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020ء کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سامنے آیا تھا جس کے بعد سے اس وبا کو اب تک 3 ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ملک میں اس وبا کا پھیلاؤ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے اور پہلے یومیہ 2 ہندسوں میں آنے والے کیسز اب 3 ہندسوں میں پہنچ چکے ہیں جبکہ اموات کی شرح بھی بڑھی ہے۔اگر ایک نظر ملک میں کورونا کے پھیلاؤ پر ڈالیں تو فروری اور مارچ کے آخر تک ملک میں 2 ہزار کے لگ بھگ کیسز اور 26 اموات تھیں۔اپریل کے آغاز میں وائرس کے کیسز میں کچھ تیزی آئی اور یہ مہینے کے آخر تک تقریباً 2 ہزار سے بڑھ کر ساڑھے 16 ہزار سے تجاوز کرگئے جبکہ اسی دوران اموات بھی 385 تک پہنچ گئیں۔تاہم رواں ماہ مئی اس وائرس کے لیے اب تک سب سے زیادہ خطرناک رہا ہے اور اس میں وبا کے کیسز میں دوگنا اضافہ دیکھا گیا اور کیسز میں 39 ہزار جبکہ اموات میں 771 کا اضافہ ہوا۔ کورونا وبا کی صوبہ کے اعتبار سے اب تک جو صورتحال ہے اس کے تحت بلوچستان میںدو روز کے دوران کورونا وائرس کے مزید 61 کیسز رپورٹ ہوئے جس کے بعد صوبے میں کیسز کی مجموعی تعداد 3468 ہوگئی۔علاوہ ازیں گزشتہ 24 گھنٹے میں مزید ایک شخص کووڈ 19 کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگیا جس کے بعد اموات کی مجموعی تعداد 41 تک پہنچ گئی۔صوبائی محکمہ صحت کے مطابق صوبے میں کورونا کے فعال کیسز کی تعداد 2432 ہے۔خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران کورونا وائرس کے مزید 175 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس کے بعد مجموعی کیسز کی تعداد 8080 ہوگئی ہے۔علاوہ ازیں اسی عرصے میں مزید 10 افراد کورونا وائرس کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگئے جس کے بعد اموات کی مجموعی تعداد 408 تک پہنچ چکی ہے۔ پنجاب میں کورونا وائرس کے 520 نئے کیسز اور 5 اموات سامنے آئی ہیں۔ ہیلتھ کے صوبائی ڈائریکٹریٹ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ان نئے کیسز کے بعد مجموعی تعداد 20 ہزار 77 ہوگئی۔رپورٹ کے مطابق صوبے میں مزید 5 اموات بھی ہوئیں، جس کے بعد مجموعی اموات 337 تک پہنچ گئیں۔پاکستان معاشی بحران اور کورونا کی وبا سے بیک وقت لڑ رہا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن خبردار کرتی رہی ہے کہ عوام احتیاط سے کام لیں۔ معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عوام نے احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کیا تو لاک ڈائون میں کی گئی نرمی واپس لے لی جائے گی۔ عید اور عید سے قبل کی بے احتیاطی اگلے چند روز میں اپنا نتیجہ ظاہر کرسکتی۔ ہم نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو کورونا تباہ کن ہو سکتا ہے۔