موجودہ صورتحال گھمبیر ہوتی جا رہی ہے، بالکل گنجلک، ریشمی دھاگے کی طرح، جس کا سرا نہیں مل رہا اور مزید کوششوں سے دھاگہ اور الجھ رہا ہے۔ کبھی کبھی غالب کی غزل کے مصرعے ذہن میں آنے لگتے ہیں ’’درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا‘‘ کیا کیا جائے اور بوکھلائی ہوئی حکومت اچھا کام بھی برے انداز میں کرتی ہے، دوسری بات یہ کہ اس کے خلوص اور نیت کے آڑے سیاست آ جاتی ہے۔ کوئی نثری نظم قسم کی شے بنتی جا رہی ہے۔ فیض صاحب کی خوبصورت وضاحت یاد آ گئی کہ نظم کا مقصد تنظیم ہے اور نثر کے معنی بکھیرنے کے ہیں۔ متضاد عمل ایک ہی وقت میں کیسے ممکن ہو سکتے ہیں۔ اصل میں حکومت پر کچھ واضح نہیں کہ اسے کرنا کیا ہے۔ دو روٹیاں کھانے کے بعد بچائی نہیں جا سکتیں۔ دو کشتیوں میں پائوں رکھنے کا محاورہ تو پرانا ہو چکا۔ اب دیکھیے ایک دوست پوچھتا ہے کہ اعتکاف پر پابندی عقل سے ماورا ہے کہ اس سے اچھی آئسولیشن کا تصور نہیں ہو سکتا۔ اب بتائیے یہ کیسے فیصلے ہیں؟ خیر میں کوئی فتویٰ نہیں دے سکتا مگر سوچنے کی بات ضرور ہے کہ سارے خدشات مسجدوں کے حوالے ہی سے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہمیں اس خوفناک وبا نے بھی یکجا نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ برداشت اور بردباری بھی نہیں کہ کوئی گنجائش پیدا کر لیں۔ آپ نے اگر قانون بنایا ہے تو پھر وہ سب پر لاگو ہونا چاہیے وگرنہ اس سے منافرت جنم لیتی ہے۔ اس میں صرف حکومت ہی مجرم نہیں ہم بھی ہیں۔ مثلاً جمعرات کو بیگم کو لے کر جوتے خریدنے نکلا تو میرے والد صاحب جو اٹھاسویں سال میں ہیں میرے ساتھ بیٹھے تھے، وہ سڑکوں پر رش دیکھ کر توبہ توبہ کر اٹھے۔ کہنے لگے تم تو روزانہ کورونا کورونا سے ہمیں ڈراتے رہے۔ کہاں ہے کورونا؟ یہ تو سارے لوگ ہی لوگ ہیں! ان میں تو ایک بھی کورونا نہیں ہے۔ میں نے کہا ’’کورونا تو ہوا میں ہوتا۔ متاثرہ بندے سے چپکا ہوتا ہے یا پھر، میری بات اچک کر کہنے لگے ’’پھر سب نے ماسک کیوں پہنے ہوئے ہیں اور بہت سوں نے کیوں نہیں پہنے ہوئے‘‘ خیر ہر بات کا جواب کون دے سکتا ہے۔ حاصل حصول یہ کہ بے تحاشہ رش کے باعث گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ ہی نہ ملی اور ہم گھنٹوں رینگتی ٹریفک کے ساتھ ہوتے ہوئے واپس گھر پہنچے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بہادر ہیں یا بے نیاز کہ کورونا کو خاطر میں نہیں لا رہے یا پھر کہ ’’گری جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہے‘‘ والی بات ہے۔ میں خود بھی نہیں سمجھ سکا کہ ہمارے لیے جوتے اور عید کی دوسری خریداری کیا اتنی ہی ضروری تھی کہ ہم ہر قسم کا خطرہ مول لیتے ہوئے گھر سے دیوانہ وار نکل پڑے۔ واقعتاً خواہشات بہت منہ زور ہوتی ہیں۔ آپ حماقت کہہ لیں۔ ایک دفعہ واصف علی واصف سے کسی نے پوچھا ’’موت سے بہت ڈر لگتا ہے کیا کروں‘‘ واصف صاحب نے کہا ’’موت کے قریب ہو جائو‘‘۔ کشتی میں بیٹھ کر تو میں ڈرتا رہا مگرکشتی الٹ گئی تو سمندر نہیں رہا یہ تو ہوتا ہے کہ ’’پھر میرے ہاتھ پائوں چلنے لگے، جب مرے ہاتھ سے کنارا گیا‘‘۔ خیر موجودہ وبا کے حوالے سے یہ بات مختلف ہے، مگر کچھ نہ کچھ ہے کہ فطرت خوف کا تریاق مہیا کر دیتی ہے۔ دیکھیے عقیدت اور پختہ ایمان و یقین انسان کے اندر مدافعت پیدا کر دیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو اس درجہ پر بات آتی ہے کہ زہر بھی اثر نہیں کرتا۔ یہ تو میں سائنسی حوالے سے بات سمجھا رہا ہوں وگرنہ تو جب غیب سے نصرت اترتی ہے تو سائنس بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ وائرس پیدا کرنے والے اس سے بچاتا بھی تو ہے، ہم اسباب کے محتاج وہ تو نہیں۔ سب کچھ یا نہیں ہمارے حواس میں نہیں آتیں، عقیدت کی طاقت کو کوئی نہیں سمجھتا سکتا۔ آپ بالکل مت سمجھیے گا کہ میں کوئی جذباتی بات کر رہا ہوں۔ یہ صرف جذباتی نہیں نفسیاتی بھی ہے۔ کورونا کا خوف پھیلانے والے بھی تو کمزور نفسیات والوں کو شکار کر رہے ہیں کہ اس خوف کو ایک مقام پر لا کر بیچا جائے۔ بے چارے کمزور ارادے والے تو اپنی چھینک سے بھی ڈرے ہوئے ہیں کہ کہیں اندر کورونا نے انگڑای نہ لی ہو! کیا جائے منڈیاں بھری ہوئی ہیں، یہ غریب ہر بات سے بے خبر اور بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں کہ کورونا کے حوالے سے سوچیں۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اگر حکومت سچ مچ سنجیدہ ہے اور اس مسئلے کو واقعتاً تشویشناک اور درست سمجھتی ہے تو پھر نامقبول فیصلہ کرے۔ وہ تو کش مکش میں ہیں ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ اس کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں ہی کو نہیں، مذہبی سکالرز اور دوسرے سٹیک ہولڈر کو ایک جگہ اکٹھا کریں اور مکالمہ کریں اور پھر انہی کے حوالے سے عوام کو مخاطب کریں۔ بچے کب دوائی پیتے ہیں۔ ان کی بہتری کے لیے بعض ان کو قابو کر کے دوائی پلانا پڑتی ہے۔ اگر آپ زبردستی نہیں کریں گے تو لوگ بچگانہ حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے۔