پہلے امریکی صدر ٹرمپ اور اب وزیر خارجہ پومپیو‘امریکی حکمران مسلسل کورونا کے پھیلائو کا الزام چین پر لگا رہے ہیں‘ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے ‘کہا یہ جا رہا ہے کہ کورونا وائرس طبعی نہیں‘ لیبارٹری میں پیدا کردہ ہے‘ ایک چینی سائنس دان لی کی گرفتاری کو اس معاملے سے جوڑا جا رہا ہے اور یہ ثابت کرنے کے لئے امریکی حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ چین نے دنیا میں تباہی پھیلائی۔ خدا کا شکر ہے ابھی تک امریکی سائنس دان اپنی حکومت کی تائید و حمائت پر آمادہ نہیں۔ ڈاکٹرفائوچی تو کھل کر اس پروپیگنڈے کی مخالفت کر رہا ہے مگر باقی خاموش ہیں‘ صرف پاکستان نہیں ‘ یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو تسلسل سے کورونا وائرس کو طے شدہ عالمی منصوبہ ثابت کرنے پر تُلے ہیں‘ بل گیٹس کے خلاف امریکہ اور یورپ میں مظاہرے بھی ہوئے۔ یہ سازشی تھیوری بیان کرنے والے کورونا وائرس کا ناطہ آبادی میں کمی‘ نیو ورلڈ آرڈر کے قیام‘ یہودیوں کی مکمل معاشی اور سیاسی بالادستی اور انسانی جسم میں مخصوص چپ کی تنصیب کی خواہش سے جوڑتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ فی الحال اعتماد سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ ثبوت موجود ہیں نہ کورونا کسی کو سوچنے کی مہلت دے رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے چین کے خلاف پراپیگنڈہ مہم البتہ شکوک و شبہات میں اضافہ کر رہی ہے۔ یہ امریکہ اور چین کے مابین اقتصادی و معاشی جنگ ہے یا سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں معرکہ آرائی؟ دنیا بھر میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو محدود کرنے کی امریکی سازش یا سائنس و ٹیکنالوجی کے علاوہ معیشت کے میدان میں امریکی قیادت کا بھرم ختم کرنے کی چینی منصوبہ ؟وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ معاملات ابھی واضح ہیں نہ کسی تھیوری کو ثابت کرنا آسان؟ ایک حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ پوسٹ کورونا ورلڈ ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ مختلف ہو گا‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بدلی‘9/11نے بعد دنیا کا موڈ بدلا‘ امریکہ نے کوس لمن الملک بجایا‘ امریکہ کی تابعدار دنیا وجود میں آئی ہم تو خیر کسی قطار و شمار میں نہیں‘ چین اور روس نے بھی ہر معاملے میں امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائی‘ ہیرو ولن بن گئے اور ولن ہیرو‘ دہشت گردی‘ عسکریت پسندی اور بنیاد پرستی کے خاتمے کے نام پر وحشت ودرندگی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے‘ امریکہ کی دیکھا دیکھی ہر طاقتور نے اپنے کمزوروں اور زیردستوں کو ملیا میٹ کرنے کی ٹھان لی‘ سب سے زیادہ نشانہ مسلمان بنے کہ کشمیر سے فلسطین‘ برما سے گروزنی اور افغانستان سے سنکیانگ تک وہی آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے اور اپنی جان و مال‘ عزت و آبرو کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل‘ دہشت گردی کے نام پر مسلم ممالک کے فرعون صفت حکمرانوں نے بھی خوب بدلے چکائے اپنی مرضی کی دنیا تخلیق کرنے کا یہ مجنونانہ کھیل شائد قدرت کو پسند نہ آیا اور آج پوری دنیا کے طاقتور ‘ جارح اور وحشی اپنے انجام سے خائف ہیں۔ امریکہ الزامات کو چین کھسیانی بلّی کھمبا نوچے قرار دے رہا ہے اور ٹرمپ کے مخالفین اسے امریکی صدر کی ناکام پالیسی سے توجہ ہٹانے کی حکمت عملی۔ سابق امریکی صدر بارک حسین اوبامہ نے گزشتہ روز ٹرمپ کو اسیّ ہزار اموات کا ذمہ دار قرار دیا جو بروقت حفاظتی تدابیر اختیار کر سکے نہ ان کے جاری کردہ ہیلتھ پروگرام کو وسعت دینے میں کامیاب۔ یہ امریکہ میں انتخابات کا سال ہے اور ٹرمپ کو ناکامی کے شدید خدشات لاحق۔ مگر چین کے خلاف اس کی حالیہ مہم محض انتخابات جیتنے اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی سعی ہے یا طویل المیعاد امریکی ایجنڈے کا حصہ؟ میری ناقص رائے میں امریکہ کی ڈیپ سٹیٹ چین سے خوفزدہ تو پہلے بھی تھی مگر کورونا کو کنٹرول کرنے کے لئے اس کی صلاحیت اور دنیا بھر میں اثرورسوخ قائم کرنے کی حالیہ کوششوں نے امریکہ کی آنکھیں کھول دی ہیں اور اسے اندیشہ لاحق ہے کہ پوسٹ کورونا ورلڈ میںامریکہ کا کردار محدود‘ چین کا دائرہ عمل وسیع ہو گا۔ ایک معمولی مثال سے یہ بات سمجھنا آسان ہے ‘کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد ٹرمپ نے یہ بڑھک ماری کہ ہمارے پاس صحت کا بہترین نظام ہے‘ ہمارے وینٹی لیٹر ‘ سینی ٹائیزر اور ٹیسٹنگ کٹس سے پوری دنیا استفادہ کر سکتی ہے مگر آج عملی صورت حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں چینی طبی سازوسامان بک رہا ہے‘ علی بابا کے جیک ما کا نام گونج رہا ہے جس نے صرف طبی سازو سامان بیچا نہیں بلکہ غریب ممالک کو عطیہ بھی کیا مگر امریکہ کو اپنی پڑی ہے‘ امریکی صدر اپنے دوست ممالک کی مدد کرنے کے بجائے چین کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ بل گیٹس‘ وارن بوفٹ سمیت امریکی دولت مند افراد جیک ما کے مقابلے میں کسی قوم اور ملک کی مدد کو نہیں آئے‘ جبکہ بل گیٹس کو صرف یورپ ہی نہیں امریکہ میں بھی ظالمانہ تنقید کا سامنا ہے۔ عام خیال یہ تھا کہ پوسٹ کورونا ورلڈ میں امریکہ کی معاشی و اقتصادی اجارہ داری مزید مستحکم ہو گی‘ چینی مصنوعات کورونا سے داغدار اور اپنی صحت کے معاملے میں حساس و نازک مزاج یورپی و امریکی باشندوں کے لئے ناقابل قبول‘ ناقابل استعمال ہوں گی مگر معاملہ اُلٹ ہے‘ اب امریکہ کو چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے اور کرانے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے کہ یہ امریکی مصنوعات کے مقابلے میں زیادہ محفوظ‘ زیادہ سستی اور زیادہ مقدار و تعداد میں دستیاب ہوں گی۔ اسلحے کا کاروبار بھی شائد نفع بخش نہ رہے کہ اسلحہ کے بڑے خریداروں کی ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں‘ تیل کی ارزانی نے ان کی کمر توڑ دی ہے اور بھارت کے سوا کوئی ملک ایسا نہیں جس پر جنگی جنون سوار ہو یا وہ اسلحے کی خریداری سے اپنا اقتصادی و معاشی بیڑاغرق کر سکے۔ ہمارا ہمسایہ اور دوست چین اگر کورونا کی نئی لہر پر بھی قابو پا لے اور پوسٹ کورونا ورلڈ کے لئے درکار مصنوعات کی پیداوار و معیار کو عالمی ضرورتوں کے مطابق بڑھانے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ امریکی تکبّر‘ سرکشی اور وحشت و درندگی کورونا کے مقابل ہار جائے‘ نمرود ایک مچھر کی مار ثابت ہوا‘فرعون کو دریائے نیل کی لہریں لے ڈوبیں‘ گوربا چوف کے ایک غلط فیصلے نے سوویت یونین کو سپر پاور کے مقام سے دریوزہ گر کی سطح پر لاکھڑا کیا‘ امریکہ کس کھیت کی مولی ہے۔کورونا اگر واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عالم انسانیت کے لئے آزمائش و ابتلا ہے تو امریکہ کے سر پُر غرور کو خاک بسر کیوں نہیں کر سکتا‘ طاقت‘ دولت‘ سائنس و ٹیکنالوجی کا بھرم تو اس نے گزشتہ دو ماہ میں کھو ہی دیا ہے۔ کورونا کے مقابلے میں افغانستان اور امریکہ ایک ہی صف میں کھڑے ہیں فرق بس یہ ہے کہ افغانستان کی حالت بہتر ہے مریضوں‘ اموات کے لحاظ سے کئی گنا بہتر۔اگر سازشی تھیوری کو مان لیں تو امریکہ نے چین کے خلاف سازشی جال بُنا‘ چین نے جوابی وار کیا‘ امریکہ اور اس کے اتحادی یورپ میں دو لاکھ شہری جان کی بازی ہار گئے اور معلوم نہیں کتنے موت کی وادی میں اُتر نے کے لئے تیار ‘اللہ تعالیٰ ہر انسان کو آزمائش و ابتلا سے محفوظ رکھے مگر انسان اللہ کی تدبیر پر غور بھی تو کرے۔