پاکستانی خزانہ اور اس سے منسلک معیشت کی حالت اس وقت تشویشناک ہے۔ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں بجٹ خسارہ1800ارب روپے ہے جبکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں یہ خسارہ29 فیصد بڑھ چکا ہے یعنی ہمارا خرچہ آمدن سے زیادہ ہے ۔اس بار یہ خرچہ مزید بڑھ گیا ہے ۔حکومت کی طرف سے ترقیاتی اخراجات کم کئے گئے ہیں ۔9سو ارب ترقیاتی اخراجات تھے ،جو اب 700 ارب کر دیے گئے یعنی 200 ارب کم کردیے گئے ۔ریونیو کے نئے اہداف حاصل کئے گئے ہیں ۔حکومت اپنی آمدن میں اضافے کیلئے کوشش کر رہی ہے لیکن اخراجات قابو میں نہیںآ رہے، اس وقت بجٹ خسارہ مجموعی پیدا وار کے 3.3فیصد کے برابر پہنچ چکا ہے ۔اگر اس سال ہماری 6 ہزار روپے آمدن ہوتی ہے تو اس سے زیادہ 3.3ارب روپے حکومت خرچ کرے گی۔ حکومت نے آمدن میں اضافے کیلئے منی بجٹ بھی پیش کیا لیکن بات بن نہیں رہی، اس صورتحال کو لیکر جب ہم آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے تو وہ پوچھے گا اتنا بڑا خسارہ آپ کیسے پورا کرینگے ۔پہلے ہی آپ کا خرچہ آپ کی آمدن سے کہیں زیادہ ہے، اس کے علاوہ ہمارا تجارتی خسارہ بھی تشویشناک حد تک پہنچ گیا ہے ،اس پہلے 6 ماہ میں تجارتی خسارہ 100 فیصد بڑھ گیا ہے ،ہماری امپورٹ ایکسپورٹ سے کہیں زیادہ ہو گئی ہیں، اس وقت ملکی تجارتی خسارہ 25 ارب50کروڑ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ ماہرین معیشت کہتے ہیں :یہ بہت ہی تشویشناک بات ہے ۔گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ خسارہ 12 ارب 34 کروڑ ڈالر تھا، اس کے علاوہ رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں معیشت پر مجموعی قرضوں کا بوجھ2274 ارب سے بڑھ کر 40ہزار973ارب روپے ہو گیا،رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں وفاق کی مجموعی آمدن3680ارب روپے رہی این ایف سی کے تحت صوبوں کو 1700ارب دیے گئے، وفاق کے پاس 1950 ارب روپے رہ گئے جس میں سے وفاق نے3750ارب کے اخراجات کئے آمدن کے مقابلے میں اخراجات1800روپے زائد ہو گئے۔ گزشتہ سال یہ بجٹ خسارہ 1400ارب روپے تھا قرضوں پر سود کی واپسی1400ارب روپے کی گئی قرض اور سود مرکز کے پاس بھی آمدن کا لگ بھگ70 فیصد کھاگئے۔ دفاع پر514ارب روپئے خرچ ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر274 ارب روپئے مختص کئے گئے۔ دوسری جانب بین الاقوامی ادائیگیوں اور وصولیوں کو دیکھا جائے یہاں بھی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے ۔گزشتہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بین الاقوامی وصولیاں ایک ارب 87 کروڑ ڈالر زائد تھیں جب اس مالی سال میں زیادہ مشکل صورتحال ہے ۔سر پلس 7 ارب ڈالر کے خسارے میں تبدیل ہو گیا ۔جولائی سے دسمبر2021 تک تجارتی خسارہ100 فیصد بڑھ کر25 ارب 50 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا گزشتہ مالی سال میں یہی خسارہ 12 ارب 34 کروڑ ڈالر تھا ہر حکومت کی طرح پی ٹی آئی حکومت کا بھی اخراجات کا بڑا حصہ قرض اور سودکی واپسی کا ہے ۔یہ حکومت بھی قرض برائے قرض کی پالیسی پر چلتے ہوئے معیشت کو قرضوں کی دلدل میں دھنسا رہی ہے رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران معیشت پر مجموعی قرضے کا بوجھ 2274 ارب بڑھ کر40 ہزار973ارب تک پہنچ گیا ۔یہی وجہ ہے کہ قرض اور سود کی ادائیگی کا حجم بھی بڑھ رہا ہے اور خسارے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت مجموعی ملکی پیدار کو دوبارہ مانپا ہے اور ان پیمانوں کے استعمال سے پاکستانی معیشت گزشتہ سال 3.9 فیصد نہیں بلکہ5.37فیصد سے بڑھی، اس طرح سے پاکستانی کی مجموعی پیداوار متاثر کن رہی۔ اسد عمر کا کہنا تھا : پچھلے سال کی شرح نمو کا جو حتمی نمبر ہمارے پاس آیا ہے 3.9فیصد نہیں5.37فیصد تھا جو ہماری بڑی صنعتوں کی شرح نمو پہلے 9 ماہ کے اندر9.29فیصد رہی۔ جب سال مکمل ہوا سال کی اوسط جو ہے15.27فیصد تک پہنچ گیا تھا۔3.94 سے 5.37 تک جو حکومت پہنچی اس میں سے 1.12فیصدتو لارج اسکیل مینو فیکچرنگ کا ہے پچھلے سال1457 ڈالر بڑھ کر1666ڈالر بن گئی۔ ہماری پر کیپیٹا انکم ری بیسنگ کے بعد پاکستان کی معیشت کا سائز بنتا ہے۔2021 میں وہ347 بلین ڈالر کی معیشت بن جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق بہت سی چیزیں پہلے ان فارمل تھیں جو ڈاکیو منٹ ہو کر فارمل میں آ گئی ہیں ہمارے کچھ ایسے سیکٹر تھے جو کیچ نہیں کئے جا رہے تھے پچھلے 10 سالوں میں بہت سی نئی صنعتیں بہت سے نئے شعبے آئے ان میں سرگرمیاں تیز ہو ئیں اس میں ڈیٹ تو جی ڈی پی کے حوالے سے اہم ریلیف ہے آگے جو کام کرنا ہے ۔اس میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو بڑھانا ہوگا۔جب کہ آپ کی ٹیکس ٹوجی ڈی پی ریشو 9 سے نیچے ہے اس کا مطلب ہے کہ وہاں پر ابھی بھی پوٹینشل موجود ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکسز کو آگے بڑھایا جائے۔ماہرین کے مطابق اگر گھر کی آمدنی18000ہے اور خرچہ25000ہے تو یہ تشویشناک بات ہے۔ آپ ہر سال قرضہ لیں گے اور اسے اتارنے کیلئے مزید قرضہ لیں گے یوں قرضہ بڑھتا جائے گا جب تک آمدنی میں اضافہ نہیں ہو گا بات نہیں بنے گی۔ پاکستان کے ساتھ یہی ہو رہا ہے آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہیں ۔ ماہرین کے مطابق پچھلے10 سے12سال میں یہی ہو رہا ہے جتنی آمدنی ہوتی ہے اس کا 60 سے70 فیصد قرضوں اور سودکی ادائیگی میں چلا جاتا ہے پچھلے سال3700 ارب روپے ریونیو تھا وفاق کا اس میں قرضے اور سود جانا تھا وہ 3195ارب تھے اس سال ریونیو بڑھ گیا ہے جو تقریباً4500ارب کا ہو گیا ہے لیکن قرضوں کی ادائیگی 3900 ارب ہو گی ۔کوویڈ کے دوران صرف تین ملک ایسے رہے جن کا فیسکل ڈیفیسٹ نہیں تھا ان میں ناروے،سعودی عرب اور سوئٹزر لینڈ تھا باقی ممالک کا فیسکل ڈیفیسیٹ بڑھا ہے۔ امریکا کا7.8فیصدانڈیا کا 5.9فیصدتھا ،پاکستان کا ٹوٹل تخمینہ جو لگایا گیا تھا وہ 4000ارب کا گیپ لگایاگیا تھا وہ اگر چھ ماہ بعد2000 ارب سے کم ہے تو وہ قابل تشویش نہیں ہے۔ اگرچہ ابھی بھی یہ کم ہونا چاہئے پاکستان کااصل مسئلہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے جو بڑھتا جا رہا ہے اگر ہمارے پاس ڈالر زیادہ نہیں آتے تو مشکل ہو گی۔ بعض ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ستمبر میں جب آئی ایم ایف پرو گرام ختم ہو گا تو ہمیں دوبارآئی ایم ایف کے پاس جانا ہو گا کیونکہ ہمیں جو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے ہم اس قابل نہیں ہو سکیں گے وہ ادائیگیاں کر سکیں ۔کشکول توڑنے کی بجائے ہمیں یہ کشکول سنبھال کر رکھنا ہوگا اگلے چھ ماہ بڑے اہم ہونگے پہلا تیل کی قیمتیں ہیں۔ ہمارے ٹریڈ ڈیفیسیٹ میں اہم فیکٹر تیل کی خرید ہے جو پچھلے ایک سال میں45 فیصد بڑھ چکی ہے جہاں آپ پہلے 100 ڈالر کا تیل منگواتے تھے اب وہ150 ڈالر کا منگوارہے ہیں اگر تیل کی قیمتیں بڑھتی رہیں تو تجارتی خسارہ مزید بڑھے گا ۔دوسرا فیکٹر افعانستان کا ہے جب تک افعانستان میں صورتحال بہتر نہیں ہوتی اس وقت تک غیر ملکی انویسٹمنٹ نہیں آئیگی اور تیسرا فیکٹر اومیکرون کا ہے کہ وہ کس طرح سے پھیلتا ہے ان تین چیزوں کو مد نظر رکھنا ہو گا۔