جنوبی کشمیر کے لاروکولگام اتوار21اکتوبرکی صبح اس وقت قیامت صغریٰ آن پڑی کہ جب یہاں 14عام شہری شہید ہوئے جبکہ ملحقہ علاقوں میں فوجی بربریت کے نتیجے میں60سے زائد افراد بری طرح زخمی ہوگئے ہیں جنہیں کولگام، اسلام آباد، پلوامہ اور سرینگر کے مختلف ہسپتالوں میں علاج و معالجے کی خاطر داخل کرایا گیا۔ کشمیرمیںبربریت کی تازہ لہرکے نتیجے میں وادی کے طول عرض میں ایک بار پھر غم اندوہ کی لہر دوڑ گئی۔ عوامی احتجاج سے نمٹنے کے لیے گورنرانتظامیہ نے علاقے میںفوج کی بھاری نفری کو تعینات کردیا ہے جبکہ موبائل انٹرنیٹ سروس اور ٹرین سروس بھی معطل رہی۔ ہرسانحے کے موقع پر یہ بات الم نشرح ہوتی چلی جارہی ہے کہ دہلی سرکار کشمیری مسلمانوں کی جائز خواہشات کا گلا گھونٹ رہی ہے اور انہیں گاجرمولی کی طرح کاٹنے کو بھی ملکی مفاد کا نام دے کر جائز سمجھتی ہے ۔ بھارت چاہے جس قدر بھی اسلامیان کشمیرکے صبر کا امتحان لے، لیکن انجام کار ا سے کشمیریوں کو بنیادی حق دینا ہوگا۔ دائمی امن کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ریاست کے عوام کوحق خودارادیت فراہم کرکے کشمیر مسئلے کا جلد منصفانہ حل تلاش کیا جائے۔ نئی دہلی جس قدر جلد انصاف سے کام لے گی اتنا ہی یہ خود اس کے لئے اور اس خطے کے مفاد میں ہوگا۔بہر حال کولگام میں قتل عام کے بعداحتجاجی لہر اٹھنے سے بھارت کوکشمیر سے متعلق نوشتہ دیوار ضرورپڑھ لینی چاہئے ۔ کشمیری مسلمانوںکی نسل کشی بھارت کی اسی ناپاک پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ جموں و کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ رکھے ہوئے ہے ۔اس شرمناک منصوبے کامقصد یہ ہے کہ اسلامیان کشمیر نسل در نسل بدترین بھارتی غلامی میں مرتے اور کٹتے رہیں ۔یہ صورتحال عالمی رائے عامہ کیلے چشم کشاہے۔ سوال یہ کہ آخر بھارتی فوج ، بدنام زمانہ پولیس ٹاسک فورس اور ظالم ریاستی پولیس کے ہاتھوں کشمیری مسلمانوں کو ظلم و زیادتیوں کا مسلسل شکار کر ایک وسیع آبادی کا قافیہ حیات تنگ کرنے کومشکلات و مصائب میں مبتلا کرنے پر بھارتی حکومت کیا حاصل کرناچاہتی ہے ؟کیا یہ بات طے نہیں ہے کہ ان سامراجی اور ظالمانہ حربوں سے کشمیری قوم کے جذبہ آزادی کو کمزور کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی ان کی صدائے آزادی کو دبایا جاسکتا ہے بلکہ اس جذبے میں مزید اضافہ ہی ہوتا رہے گا اور یہ صدا پوری دنیا کے ساتھ ساتھ بھارت کے کونے کونے میں کہرام مچا دے گی ۔کولگام کے سانحہ نے ایک بارپھر ثابت کر دیا کہ انہیں کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے ۔ کولگام سانحے سے یہ بات کا واضح ہو جاتی ہے کہ بھارت کشمیری مسلمانوں کوحشرات الارض سے بھی گزری کوئی شئی سمجھتاہے اوراسی شرمناک طرز عمل کے تحت یہاں انسانی خون کی ارزانی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کے بار باراحتجاج کا دنیا میں کوئی نوٹس نہیں لیاجارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی فوج کسی باز پرس کے خوف سے آزاد ہے۔ وہ جب ،جس طرح اورجس کو چاہے،موت کی گھاٹ اتا رسکتی ہے ۔ کولگام کے قتل عام پر کشمیری مسلمان اضطرابی کیفیت سے دوچاررہے ،اوراس قتل وغارت گری پر دنیا کی خاموشی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کوبھارتی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے روز خونین واقعات پیش آتے ہیںاورہر نیا سانحہ جنم لیتا ہے جوپہلے سے بھی زیادہ زہرناک ،بھیانک اور دردناک ہوتا ہے۔!کشمیری مسلمان بار باریہ کہہ چکے ہیں کہ کشمیر میں انسانیت تب تک مسلسل خطرے میں ہے جب تک یہاں بھارتی فوج کا ایک بھی اہلکارموجود ہے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بھارت اور ریاست میں اس کی وظیفہ خورانتظامیہ نے جموں وکشمیر میں توقیر انسانیت کی پامالیوں کے تمام ریکارڈ توڑڈالے ہیں۔واضح رہے کہ1990 سے تادم تحریر جموں و کشمیر میں ایک لاکھ سے زائدکشمیری مسلمانوں کوشہیدکردیاگیاہے ۔اور دس ہزار کو گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کردیا گیا ہے ۔ اس دوران بھارتی افواج کی بربریت سے کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوگئے ہیں 30ہزار عفت مآب خواتین بیوائیں اور 1500کے قریب نیم بیوائیں بن گئیں ہیں جبکہ جنگ بندی لائن کے قریب علاقوں میں لوگوں کی ایک بڑی آبادی ظلم کے مارے آزادکشمیرکی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئی۔اس سب کے باوجوددنیا میں امن قائم کرنے والے ٹھیکیدارواضح طور پر دوہرا معیار اپنا ئے ہوئے ہیں اور اس امتیاز اورتفاوت کی وجہ سے کشمیر میں انسانی زندگیاں زبردست خطرات سے دوچار ہیں۔عالمی اداروں کی بے رخی سے کشمیری مسلمانوں کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ شاید دینا کے کسی بھی کونے میں کوئی ایسا شخص یا ملک موجود نہیں ہے جو کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کر سکے۔ ایک طرف جب کشمیر کی کٹھ پتلی ریاستی سرکار نے اس ناقابل تردید سچ کو قبول کر ہی لیا کہ کولگام میںنہتے نوجوانوں کا خون ِنا حق ہوچکا ہے اوریہ شہید ہو ئے سب7 نوجوان عام شہری تھے۔ کشمیریوں کے اجتماعی قتل کے کثیر واقعات درج ہیں لیکن اس قتل عام کے کسی معاملے میں قاتل اہلکاروں کے خلاف سزاکے طورپرکوئی ادنیٰ سی کاروائی بھی نہ کی۔ کولگام میں ہوئے سانحے حالیہ پرکشمیریوں کی طرف سے ایک فوری نوعیت کا مکتوب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام ارسال کیا ہے جس میں ادارے سے درخواست کی گئی ہے کہ خاموش تماشاہی بنے رہنے کے سلسلے کو ختم کرکے کشمیری عوام پر ہندوستانی فورسز کے ذریعے ہونے والے مظالم کو بند کروانے میں اپنا رول ادا کرے اور تنازع کشمیر جو کہ کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں کی جڑ ہے کو حل کرانے کیلئے فوری سود مند اقدامات اٹھائے۔ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو اسکے تاریخی تناظر اور سیکورٹی کونسل قراردادوں کی روشنی میں حل کرائے اور کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا پامالیوں کو روکنے کو یقینی بنائے۔