کورونا سے 2ارکان صوبائی اسمبلی سمیت 82افراد چل بسے‘ اموات 1729ہو گئیں جبکہ ساڑھے 4ہزار نئے کیسز کے ساتھ مریضوں کی تعداد 82572ہو گئی۔ اسلام آباد میں کیسز سامنے آنے پر 9مقامات کو سیل کر دیا گیا۔ کورونا وائرس وبا کی شکل اختیار کر کے پوری دنیا میں تباہی پھیلانے کے بعد اب پاکستان میں پنجے گاڑنے لگا ہے ۔ حکومت نے تاجر برادری کی مشکلات دیکھتے ہوئے بازار کھولنے کا اعلان کیا تھا لیکن عیدالفطر سے قبل عوام نے حکومتی ایس او پیز کی دھجیاں اڑا کر بازاروں کا رخ کیا۔ اس کے بعد ٹرانسپورٹرز بھی میدان میں آئے اور انہوں نے گاڑیاں چلانے کا اعلان کر دیا۔ حکومت نے ٹرانسپورٹرز کے ساتھ بھی ایس او پیز پر عملدرآمد کرنے کی بابت کئی مرتبہ میٹنگز کیں لیکن عیدالفطر سے قبل ٹرانسپورٹرز نے بھی حکومتی اعلانات کو ہوا میں اڑا دیا جبکہ شاپنگ مالز میں بھی خریداروں کا رش رہا ،ناکوں پر کھڑے پولیس اہلکاروں اور اشاروں پر ٹریفک پولیس کے نوجوانوں کو بھی حکومت نے کٹس فراہم نہ کیں جس کے باعث اب پاکستان میں بھی کورونا بے قابو ہو چکا ہے۔ چند دنوں میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو اہے۔ جبکہ آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ اب تو شعبہ صحت سے وابستہ افراد بھی اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ کئی ڈاکٹرز اور پارلیمنٹرین اس وبا کی زد میں آ کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اسلام آباد میں کئی کیسز سامنے آنے کے بعد 9مقامات کو سیل کر دیا گیا ہے جبکہ گزشتہ روز قومی سلامتی کے اجلاس میں ایک بار پھر لاک ڈائون سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پنجاب حکومت نے تودکانداروں کو ’’نوماسک نو سروس‘‘ کی پالیسی پر عملدرآمد کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو مارکیٹیں اور دکاندار اس پر عملدرآمد نہیں کریں گے۔ حکومت انہیں بند کر دے گی گزشتہ روز کئی شہروں میں انتظامیہ نے ایسی مارکیٹوں کو بند کر دیا ہے۔ پنجاب حکومت نے سرکاری دفاتر میں ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا ہے جبکہ سیاحتی مقامات اور ریسٹورنٹس کے لئے بھی ایس او پیز جاری کر دیے ہیں۔ ایک ٹیبل پر صرف دو آدمی بیٹھیں گے۔ خلاف ورزی کرنے والی دکانوں اور بازاروں کو فوری طور پر بند کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ دو ہفتوں میں کورونا کے پھیلائو میں 73.1فیصد اضافہ ہوا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کورونا تشخیصی ٹیسٹ بھارت اور بنگلہ دیش سے کم ہو رہے ہیں جبکہ کیسز زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں اور اموات بھی زیادہ ہیں۔29اپریل کو کل ٹیسٹوں میں سے 10.21فیصد ٹیسٹ پازیٹو آ رہے تھے۔ یکم جون تک اس کی شرح میں اضافہ ہوتا گیا اب 20.36فیصد روزانہ ٹیسٹوں میں سے پازیٹو رپورٹ ہو رہے ہیں جس کے باعث کورونا وائرس سے شرح اموات 2.13فیصد ریکارڈ کی گئی ہیں۔ اس میں 73فیصد ایسے مریض ہیں جن کو کورونا کے ساتھ دیگر بیماریاں بھی لاحق ہیں جبکہ باقی 27فیصد صرف کورونا سے ہلاک ہوئے ہیں۔ اس بنیاد پر حکومت نے لوکل ٹرانسپورٹ بحال کرنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ بیمار ڈاکٹرز کے بھی کورونا وارڈز میں ڈیوٹی دینے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ درحقیقت کورونا وائرس جس سطح پر پھیل رہا ہے اس کے بعد ہم سب کو انفرادی طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہو نگی۔ المیہ یہ ہے کہ ایک طرف ملک بھر میں کورونا سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے دوسری طرف عوام احتیاطی تدابیر میں اختیار نہیں کر رہے۔ اس غیر ذمہ داری کا خمیازہ اب سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر کے ہسپتالوں میں پائوں رکھنے کی جگہ نہیں ہے جبکہ وینٹی لیٹرز کی تعداد پہلے ہی ہمارے پاس کم ہے ۔ ان حالات میں عوام کو اکٹھا کر کے اس موذی وائرس کے خلاف قومی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے سیاستدان اس موقع پر بھی اپنا اپنا چورن بیچ رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی پیشی پر کورونا ایس او پیز کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔ میاں شہباز شریف نیب کے سامنے پیش نہ ہونے کا یہ جواز پیش کر رہے ہیں کہ کورونا کے باعث وہ نیب میں پیش نہیں ہو سکتے لیکن گزشتہ روز ان کی پیشی پر ن لیگی رہنمائوں اور کارکنوں نے ماسک اور گلوز کے بغیر سیلفیاں لیں۔شہباز شریف کو اس وقت احتیاطی تدابیر کیوں نظر نہیں آئیں۔ ہمارے سیاستدانوں کا رویہ ہی عوام کو مشکلات میں دھکیل رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے غریبوں کی مشکلات دیکھتے ہوئے ہی لاک ڈائون میں نرمی کی تھی لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اس نرمی نے ہمیں مزید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔ اس وقت حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے والے شعبوں کو مکمل طور پر بند کر دیں۔ مارکیٹوں اور شاپنگ مالز اور بڑے سٹورز پر ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں ہو گا تو انہیں فوری طور پر بند کرنا ہو گا۔ کورونا کے پھیلائو کو روکنا سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر تاجر برادری کاروبار کھولنے پر بضدہے تو اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حکومتی ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ بصورت دیگر انہیں کاروبار کھولنے کی اجازت نہ دی جائے ۔اگر انتظامیہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گی تو ہی حالات قابو میں آئیں گے لیکن اگر سستی دکھائی گئی تو پھر مسائل پیدا ہونگے اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس لئے حکومت کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے لئے مزید سختی کرے تاکہ ہم سب مل کر ایک دوسرے کی جان کو محفوظ بنا سکیں۔