زبان کی پھسلن پی ٹی آئی کا ’’ھال مارک قسم کا ٹریڈ مارک‘‘ ہے اور یہ راز ہنوز تشنۂ افشا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس جماعت کے بڑے سے لے کر چھوٹے تک‘ ہر ایک رہنماکی زبان مہینے دو مہینے میں ایک بار ضرور پھسلتی ہے۔ جرمنی جاپان بارڈر سے لے کر بارہ موسموں تک‘ قائد اعظم کی ’’کمبائنڈ انڈیا‘‘ کے لئے جدوجہد سے لے کر پام آئل سے بجلی سازی تک ’’پھسلاھٹوں‘‘ کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک پوری تنصیف ’’کتاب الاذ کیاء جدید‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آ سکتی ہے۔ ابھی گزرے ہفتے کی بات ہے‘ اسرائیل کے خلاف ریلیاں نکلیں۔ کوئٹہ میں ایک ریلی پی ٹی آئی نے بھی نکالی جس کے شرکاء کی تعداد کچھ اتنی تھی کہ اس پر ٹھیک سے دفعہ 144کا اطلاق بھی نہیں ہو سکتا تھا اور اس ریلی کے شرکاء مسلسل نعرے بازی کر رہے تھے کہ اسرائیل پر بمباری بند کرو۔ نعرہ وہ لگانا چاہتے تھے کہ فلسطین پر بمباری بند کرو لیکن زبان پر فلسطین کا لفظ چڑھا نہیں اور اس کی جگہ اسرائیل نے لے لی۔ ظاہر ہے یہ پھسلن ہی تھی‘ اس کا کوئی اور مطلب کیوں نکالا جائے۔ لیکن زیادہ ’’بامعنے پھسلن ایک وزیر موصوف کی زبان سے برپا ہوئی۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ عمران خاں کو 2018ء کے الیکشن میں دو سو ملین لوگوں نے ووٹ دیے یعنی ٹھیک 20کروڑ نے۔ یہ پاکستان کی کل آبادی ہے۔ گویا نوزائیدہ بچوں اور بستر مرگ پر پڑے آکسیجن ٹینٹ لگے مریضوں نے بھی ووٹ ڈالا۔ بی بی سی کا نمائندہ کیا کہتا‘ مسکرا کر رہ گیا۔ یہ وہی وزیرہیں جنہوں نے کچھ عرصہ قبل ایک ٹویٹ میں ’’ناسا‘‘ کو پاکستانی محکمہ قرار دے دیا تھا۔ ظاہر ہے‘ ٹائپ کرنے والی انگلی زبان ہی کی ترجمانی کرتی ہے اور زبان پھسل سکتی ہے تو انگلی کیوں نہیں۔بڑے مزے کی ایک بات یہ ہے کہ ناسا نے تردیدی بیان جاری نہیں کیا اور مزے کی دوسری بات یہ ہے کہ خود وزیر موصوف نے بھی وضاحت جاری کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ٭٭٭٭٭ 200ملین سے 300ارب کا ہندسہ یاد آیا۔ یہ وہ ھندسہ ہے جو انہی وزیر موصوف نے پی ٹی آئی کی حکومت آنے سے قبل عمران خاں کو دیا تھا کہ نواز شریف نے اتنے سو ارب کی کرپشن کی ہے۔عمران خاں اسے لے اڑے اور دو سال تک اس ہندسے کو اتنا دہرایا کہ ملک میں رہنے والے ہر کس و ناکس کو حفظ ہو گیا۔کوئی جلسہ ہو‘ جلوس ہو‘ دھرنا ہو‘ انٹرویو ہو‘ میڈیا ٹاک ہو‘ ٹویٹ ہو یا غیر ملکی وفود سے گفتگو ہو‘ ان کی تان اس فقرے سے شروع ہوتی تھی کہ نواز شریف نے 300ارب چوری کئے اور ختم اس نعرے پر ہوتی تھی کہ نہیں چھوڑوں گا۔ بعد میں سنا کہ وزیر موصوف نے وضاحت کر دی کہ دراصل تین سو ارب کا یہ حساب کتاب ان کے ’’اکائونٹنٹ نے جوڑا تھا۔ اکائونٹنٹ موصوف نے وہ رقوم کن کھاتوں سے لی تھیں جنہیں جوڑ کر یہ 300ارب کی رقم بنی؟یہ پچھلے دوبرسوں سے عمران خاں نے یہ تین سو ارب روپے کی چوری والے تکیہ کلام پر تکیہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔لوگ ‘ سچ پوچھیے‘ تو ترس گئے ہیں کہ عمران خاں ایک بار پھر کاغذات لہراتے ہوئے اعلان کریں کہ نواز شریف نے 300ارب کی چوری کی۔ اب تو وہ ’’نہیں چھوڑں گا‘‘ کی گردان بھی کبھی کبھار ہی کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ سنخن گسترانہ بات دراصل ایک سوال ہے یہ کہ یہ 20کروڑ ووٹروں کے ووٹ دینے کی کیلکولیشن کس کی تھی؟ کیا اسی اکائونٹنٹ کی جس نے 300ارب روپے والی کیلکوکیشن کی تھی؟ ٭٭٭٭٭ 300ارب کا افسانہ اپنا سحر کھو چکا‘ اب یہ ایک ٹکے کیا‘ ایک دھیلے میں بھی بکنے والا نہیں بلکہ بکنے کا تو سوال ہی یوں ختم ہو گیا کہ خود دکاندار نے اپنی دکان بڑھا لی۔کچھ دھند تھی‘ چھٹ گئی‘ کچھ تو وہ تھے جو دھند کے پار دیکھ سکتے تھے اور انہوں نے پہلے ہی دن اصلی ماجرا پھانپ لیا تھا۔ دھند چھٹنے کے بعد ماجرا سب کے سامنے کھڑا ہے‘ سرعام ‘ بے حجاب! مسئلہ کرپشن کا تھا نہ پانامے اور اقامے کا۔ مسئلہ برعکس سوچنے والوں کے درمیان عشروں سے پھیلی جدوجہد کا تھا جسے نواز شریف نے جلی عنوان دے دیا اور ماجرے بھی تھے۔ نواز شریف سی پیک نہ بناتے‘ امریکہ پر انحصار میں چین کو شریک کرنے کا شرک نہ کر تے‘ موٹرویز‘ شاہراہیں نہ بنا تے‘ بجلی کا مسئلہ نہ حل کر تے‘ ہسپتالوں کی تعمیر اور غریب مریضوں کو ’’بے فالتو‘‘ کی مفت سہولیات نہ دیتے اور اسی طرح کے چند ایک اور گناہ ہائے کبیرہ نہ کرتے تو آج چوتھی بار وزیر اعظم ہوتے۔ بیچ میں وہ کشمیر کے باعزت حل کی کوشش بھی شامل تھی‘ خیر اس کا تو اب ذکر ہی کیا‘ رات گئی‘ بات بھی گئی اور ہاں ‘ آٹا‘ میڈیسن‘ ایل پی جی‘ بجلی کے نرخ‘ بی آر ٹی بی وغیرہ ڈیڑھ درجن سکینڈلوں کی کیلکولیکشن وزیرموصوف کس اکائونٹنٹ سے کرائیں گے‘ مطلب وقت آنے پر؟