آج بھی میرا نہیں اور مرا کل بھی نہیں سچ تو یہ ہے کہ مرے ہاتھ میں اک پل بھی نہیں وہ کہ تسلیم تو کرتا ہے محبت میری میں ادھورا بھی نہیں اور مکمل بھی نہیں انسان کو کیسی کیسی خوش فہمیاں ہوتی ہے اور یہ خود فریبی بھی بڑی چیز ہے ’’خود فریبی سی خود فریبی ہے‘‘ چھوڑیے میں آج نہایت دلچسپ کالم لکھنا چاہتا ہوں کہ روزانہ ہم سیاست میں بھاڑ جھونکتے رہتے ہیں۔ اسی ’’بھاڑ‘‘ سے میں بات آغاز کروں گا کہ سوشل میڈیا پر نخشب زہرا نے ایک پوسٹ لگائی جس میں سچ مچ کا ایک سٹیشن ہے یا وہ کمپیوٹر ورک ہے کہ ایک بورڈ آویزاں ہے جس پر لکھا ہے ’’بھاڑ 100کلو میٹر‘‘ اور نیچے تحریر کیا گیا ہے کہ ’’میرا ارادہ بھاڑ میں جانے کا ہے۔ کون کون تیار ہے۔ ظاہر یہ تحریر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ’’بھاڑ میں جائو‘‘ بہت عام محاورہ ہے جس کا ترجمہ انگریزی میں "Go to hell"ہی ہو سکتا ہے۔ یعنی ’’جائو جہنم میں‘‘ یہ بھاڑ میں اسی قسم کی شے ہے، خضریاسین صاحب بتانے لگے کہ یہ الائو ہی ہے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ یہ ’’بھاڑ‘‘ ایک ڈرامے وغیرہ میں بھی استعمال ہوا ہے کہ: وفا کو آگ لگ جائے محبت بھاڑ میں جائے وہی ’’کہ باز آئے محبت سے۔ اٹھالو پان دان اپنا‘‘ ’’بھاڑ میں جائو‘‘ جیسا محاورہ پھیلنے والا نہیں کہ یہ ہماری عام زندگی میں بہت استعمال رہتا ہے بلکہ استعمال کے بعد استعمال ہوتا ہے کہ جیسے سیاستدان اپنے سپورٹرز اور ووٹرز کو استعمال کرتے ہیں اور پھر اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ بھاڑ میں جائیں یہ لوگ کہ انہیں تو اپنی منزل مل گئی۔ یا تو ایسے ہو کہ کوئی یہ ثابت کرے کہ ’’ہمہ یاراں دوزخ اور ہمہ یاراں بہشت‘‘ پھرتو منیر نیازی کی طرح بندہ کہہ دے کہ ’’چلو پھر ہمہ یاراں دوزخ ہی سہی‘‘۔ یہ منیر نیازی نے اس وقت دوستوں سے کہا جب پتہ چلا کہ مشاعرہ میں جانے کے لیے ان کو ریل کے تھرڈ کلاس میں سفر کرنا پڑے گا۔ نیازی صاحب نے بتایا کہ تب سازندوں کے ساز بھی فسٹ کلاس میں رکھے گئے۔ خیر یہ بات تو ضمناً آ گئی۔ کبھی کبھی تو محبت کرنے والے بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو بس بھاڑ ہی جھونکتے رہے۔ مرزا نوشہ یاد آیا: وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آ ٓستاں کیوں ہو ظاہر ہے کوئی بھاڑ میں جا سکتا ہے۔ شرط تو یہی ہے کہ کمپنی کسی ہے۔ اللہ معاف کرے وہ تو غالب نے بھی اپنی بیوی سے کہا تھا کہ وہ تو مسکین عوام کے ساتھ جنت میں جائے گی جبکہ وہ تو فرعونوں اور بادشاہوں کے ساتھ دوزخ میں ہو گا۔ ’’بھاڑ میں جائو‘‘ والی بات ایک سطح پر تنگ آمد والی بات ہے کہ جب کوئی حد گزر جائے۔ مجھے کراچی کی فوزیہ شیخ کا شعر یاد آ گیا: سارے رشتوں کو آگ لگ جائے اب نبھانے سے تھگ گئی ہوں میں واقعتاً برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ایسے ہی جیسے عوام مہنگائی سے اتنے تنگ ہیں کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ وہ جب بھی بلوں پر اور مہنگی اشیا پر شور مچاتے ہیں تو انہیں وزیر اعظم سے ایک ہی فقرہ بار بار سننے کو ملتا ہے ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘ عوام کہتے ہیں بھاڑ میں جائے یہ این آر او۔ انہیں تو سکھ کا سانس چاہیے۔ انہیں تو دوائی چاہیے، اب انہوں نے یعنی خان صاحب نے پی ڈی ایم کے جلسے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’’پی ڈی ایم کا بیانیہ اپنی موت آپ مر گیا‘‘ مان لیا۔ مگر جو عوام مہنگائی سے مر رہے ہیں ان کا کون والی وارث ہے۔ آپ اپنے رویے سے اب تک یونہی ثابت کر رہے ہیں کہ وہ بھاڑ میں جائیں۔ وہ تو بھاڑ بھی نہیں جھونک سکتے کہ گیس کا زمانہ ہے اور گیس بھی نہیں آ رہی۔ ان کے بخت ہی ہارے ہوئے ہیں ایک آپ اور اوپر سے کورونا۔ جیسے بقول انور مسعود کچھ پانی زیادہ ہی گیلے ہوتے ہیں۔ چلتے چلتے ان کے گیلے پانی والی غزل سے ایک شعر یاد آ گیا کہ جب ہم ناروے گئے تو انہوں نے اپنی شوگر کی شکایت پر سنایا: مجھ کو شوگر بھی ہے اور پاس شریعت بھی ہے اپنی قسمت میں ہے میٹھا نہ ہی کڑوا پانی مجھے پاک ٹی ہائوس کا ایک اجلاس یاد آ گیا کہ جس میں کسی نے غزل پیش کی تو حمایتیوں نے زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے کہ اس سے اچھی غزل امکان ہی میں نہیں۔ میرو غالب بھی ہوتے تو موصوف شاعر کا پانی بھرتے، اس کے بعد مخالف دھڑے کی باری تھی، اچانک انہی کا ایک دوست جھولتا ہوا آیا کہ اس نے شاید کھانسی کا شربت پی رکھا تھا کہنے لگا ’’صاحب صدر اس سے بکواس غزل آج تک نہیں کہی گئی۔ بندہ اس سے پچھے کہ تم نے تو غزل سنی ہی نہیں اور پھر تم ہوش میں بھی نہیں۔ محمد عباس مرزا نے ایک بیت میں شاید اسی طرح اشارہ کیا ہے: بحث کرن لئی ایہہ تے بہت ضروری اے پہلاں اک دوجے دے سچ توں مکرئیے چلئے پھر آتے ہیں ’’بھاڑ‘‘ کی طرف کہ کچھ آپ کے علم میں بھی اضافہ کریں۔ یہ وہ چولہا ہے جس میں چنے وغیرہ بھونتے ہیں۔ یہ بھی لکھا ہے کہ وہ چولہا جہاں بھڑ بھونجے اناج بھونتے ہیں۔ یہ ’’بھڑ بھونجے‘‘ اصلاح بھی ہے مذاق اڑانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس لفظ کے مترادفات میں بھٹی، تنور، گلخن، خرچی اور کرایہ جیسے الفاظ شامل ہیں۔ مگر اس بھاڑ پر انشاء اللہ خان انشاء کا شعر کما ہے: جو دانہائے انجم گردوں کو ڈالے بھون اس آہِ شعلہ خیز کو افشا تو بھاڑ باندھ انشا نے تو آسمان کے دانے بھون دیئے یعنی ستاروں کو کہاں لاڈالا۔ کچھ محاورے:اب میاں صوبیدار گھر میں بیوی جھونکے بھاڑ، بارہ برس دلی میں رہے اور بھاڑ ہی جھونکا۔ایک شعر اعجاز نوح کا: شعلۂ غم سے دل کا حال یہ ہے جیسے پہلو میں جل رہا ہو بھاڑ کیسی لطف کی بات ہے کہ ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ ہم نے کوئی بھاڑ نہیں جھونکا۔ کام کیا ہے۔ جو لوگ زندگی بھر جھاڑ جھونکتے رہتے ہیں، وہ بھی تو ایک طرح کا کام ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی ہمیں بھی یہ کہہ دے کہ کیا بھاڑ جھونک رہے، کالم کو ختم کر دینا چاہیے مگر ایک شعر کے ساتھ: سارے کام ادھورے رہ جاتے ہیں وعدے پورے کے پورے رہ جاتے ہیں